Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aur Kitne Saneha e Baldia Town Honge

Aur Kitne Saneha e Baldia Town Honge

"میراچھوٹا بھائی محمد کاشف میرے ساتھ نواب شاہ اپنے آبائی گاؤں جانا چاہتا تھا، ہوا کچھ یوں کہ صبح کے وقت میں اور کاشف ساتھ ساتھ نکلے تھے۔ اس نے فیکٹری جانا تھا جب کہ میں نے گاؤں۔ میرے ساتھ میرے والد بھی تھے۔ اس نے جب ہم لوگوں کو دیکھا تو کہنے لگا کہ اگر ہم دس منٹ انتظار کریں تو وہ فیکٹری سے چھٹی لے کر آتا ہے اور ہمارے ساتھ ہی گاؤں جانا چاہتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ چلو ٹھیک ہے ہم انتظار کرتے ہیں۔ وہ فیکٹری چلا گیا۔ اس کے جانے کے کوئی پندرہ، بیس منٹ بعد شور شرابہ شروع ہو گیا۔ میں نے باہر جا کر دیکھا تو فیکٹری میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ میرا بھائی اندر تھا۔ میں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک کھڑکی توڑ کر فیکٹری کے دوسرے فلور پر پہنچ گیا۔ میرا خیال تھا کہ میرا بھائی فیکٹری کے تیسرے فلور پر ہوگا۔ میں نے تیسرے فلور پر جانے کی کوشش کی مگر وہاں پر اتنا دھواں تھا کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا کئی منٹ تک کوشش کرتا رہا جب محسوس ہوا کہ اب میں بے ہوش ہونے والا ہوں تو بمشکل اسی کھڑکی سے کود کر نیچے اترا تھا۔"

یہ الفاظ کراچی کے محمد زاہد کے ہیں، جس کا چھوٹا بھائی کاشف اس حادثے میں جاں بحق ہوگیا تھا، اسی طرح کی دلخراش کہانیاں مزید 17خاندانوں کی بھی ہوں گی جن کے پیارے کراچی کے مہران ٹاؤن کی ایک فیکٹر ی میں آگ لگنے کے پراسرار حادثے میں مارے گئے تھے، ان مزدوروں میں سے اکثریت پاکستان کے دوسرے شہروں سے محنت مزدوری کے لیے کراچی پہنچنے والوں کی تھی۔ بقول حبیب جالب

اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے

اور پھر ابھی حال ہی میں نور مقدم کیس ہوا، وہ بھی اس قوم کی بیٹی تھی، میڈیا نے شور کیا تو اُس کیس کی بھی پیش رفت ہو سکی، ورنہ وہ کیس بھی طاقت اور پیسے کے نیچے دب جانا تھا، پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ مینار پاکستان سمیت دیگر کئی کیسز ہمارے سامنے ہیں جنھیں میڈیا پر شہرت ملتی ہے تو اُن کیسز کی شنوائی بھی جلدی ہوجاتی ہے، پھر سوشل میڈیا بھی شاید پیسے والی پارٹیاں دیکھتا ہے کہ نور مقدم کیس، سانحہ مینار پاکستان شاید ایلیٹ کلاس کی نمایندگی کر رہے تھے اس لیے اُسے ہائی لائیٹ کیا گیا، یعنی مجھے تو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کی ایپس بھی صرف اُسی چیز کو وائرل کرتی ہیں جس میں اُن کا مفاد ہوتا ہے۔

خیر یہ ایک الگ بحث ہے مگر کیا مزدوروں کی کسی انسانی لاپروائی یا جرائم کی شکل میں ہلاکت کوئی معنی نہیں رکھتی؟ کیا یہ حیوانوں کا ملک ہے؟ کیا یہاں جنگل کا قانون ہے؟ یہاں تو یہ حال ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے لاہور میں ایک مزدور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے لوہا پگھلانے والے ڈرم میں گر کرجاں ہوگیا۔ گاؤں سے آنے والے غمزدہ باپ کو اس کے جوان سال بیٹے کی میت کی جگہ جلی ہوئی ہڈیوں کی ایک چھوٹی سی گٹھری پکڑادی دی گئی۔

دوسرے ہاتھ میں اس کی جان کی قیمت دو لاکھ دے کر باپ سے کہلوا دیا گیا وہ فیکٹری مالکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرانا چاہتا۔ پھر ایک اور جگہ فیکٹری مالکان نے ظلم کی انتہا کر دی اور ایک ملازم کو کسی غفلت پر اُسی فیکٹری کے ملازمین کے ذریعے پاخانے کی جگہ پر ہوا بھر دی جس سے جواں سال ملازم کے پیٹ کی انتڑیاں پھٹ گئیں، اور وہ نیم مردہ حالت میں اسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے جب کہ اُس کے باپ کو فیکٹری مالکان نے 10ہزار روپے تھما دیے کہ خرچہ پانی رکھ لو! کیا ہم انسانوں کی دنیا میں رہتے ہیں؟ نہیں ناں! کیوں کہ اگر رہتے ہوتے تو ہم بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے کہ جہاں 20کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے کی صورت میں 264مزدوروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔

تصور کریں کہ حالیہ سانحہ مہران ٹاؤن میں 17مزدور یا سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں سیکڑوں مزدور یا اس طرح کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے مزدور جب اس طرح کے واقعات کا شکار ہوتے ہوں گے تو اُن پر کیا گزرتی ہوگی؟ پل بھر کو سوچیں کہ وہ تو لمحاتی تکلیف سے گزر گئے، اللہ اُن کی اگلی منزلیں آسان کرے، مگر اُن کے خاندان کس اذیت سے گزرتے ہوں گے؟ کیا کبھی کسی نے یہ بات سوچی؟ کیا کسی نے اس طرف توجہ نہیں دلائی کہ حالیہ سانحہ بھی سانحہ بلدیہ ٹاؤن سے ملتا جلتا ہے، جہاں حادثے کے وقت تمام دروازے بند کر دیے گئے تھے۔

اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ ریاست بھی اس سانحہ کے بعد حرکت میں نہیں آئی! پھر لوگ صحیح کہتے ہیں کہ اس ملک میں کونسی ریاست؟ کونسے ہیومن رائیٹس؟ کونسے بلڈنگ بائے لاز، کونسے لیبر قوانین؟ الغرض یہ معاملہ سنگین تشویش کا ہے کہ وطن عزیز میں مزدور کی جان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر یہ خوفناک حادثے خدانخوستہ پاکستان کے امیر طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ہوئے ہوتے، کسی کارپوریٹ دفتر میں لوگ حادثاتی طور ایسے مر جاتے۔ طبقہ اشرافیہ کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے 17 افراد اس طرح آگ میں جل کر مر جاتے جیسے کورنگی کراچی کی فیکٹری کی ہوا تو کیا ہوتا؟ کیا اس روز میڈیا پر چلنے والے پرائم ٹائم پروگراموں کا موضوع یہ حادثہ نہ ہوتا؟

ہماری صحافتی اشرافیہ کے سپرا سٹار صحافی تازہ ترین سیاسی ڈویلپمنٹس کو بھول کر اپنے تجزیوں اور تبصروں میں اس حادثے کا ذکر نہ کر رہے ہوتے؟ لہٰذا قصور ہمارا بھی ہے کہ ہمارا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ ہم کسی بھی سانحے کے بعد کسی اور بڑے سانحے کے انتظار میں اُس کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھتے ہیں کہ جب تک وہ خود شکار نہ ہوجائے! اس لیے دیر نہ کریں اور ان سانحات پر بھی اُتنا ہی شور مچائیں جتنا دوسرے سانحات پر ڈالا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بھی ہماری ہی اولاد میں سے ہیں!