سقراط نے کہا تھا کہ "میں بھی جاہل ہوں اور میرے اردگرد رہنے والے لوگ بھی، فرق صرف یہ ہے کہ میں اپنی جہالت کو جان گیا ہوں اور وہ نہیں جانتے"۔
عظیم فلاسفر سقراط کا یہ قول ہم لوگوں پر بہت فٹ بیٹھتا ہے، کیوں کہ جب ارد گرد کے ممالک سمیت دنیا بھر میں کورونا کی دوسری اور کئی ملکوں میں تیسری لہر چل رہی ہے تو ہم کس قدر لا پرواہ ہو چکے ہیں۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کورونا کو ہم لوگ بہت آسان لے رہے ہیں، یہ بڑی شدت سے واپس آرہا ہے۔ ویسے تو راقم کے تمام تر خدشات درست ثابت ہوئے اور کورونا کی دوسری لہر کا تقریباً آغاز ہوچکا ہے۔
اس سے پہلے جون میں جب کورونا پوری طرح زوروں پر تھا، اسی وقت سے ان خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ خزاں کے ساتھ ہی جب فلو سر اٹھانے لگتا ہے، کورونا کی دوسری لہر لائی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق فلو اور کورونا کی علامات تقریباً ایک جیسی ہی ہیں اور ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہونے کا طریقہ بھی مماثل ہے۔
دونوں بیماریاں اتنی حد تک ایک دوسرے سے ملتی ہیں کہ کورونا کے مرض کے لیے کیا جانے والا ٹیسٹ پی سی آر، فلو کے مریض کا بھی مثبت ہی آتا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے بارے میں جو خدشات ظاہر کیے جارہے تھے، وہ اب آہستہ آہستہ درست ثابت ہورہے ہیں اور یورپ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
جب کہ پاکستان کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مجھے ایک اعلیٰ افسر نے بتایاکہ پہلے اگر ہم ہزار افراد کی ٹیسٹنگ کرتے تھے تو اُس میں سے 10کو کورونا وائرس ہوتا تھا، جب کہ اب کورونا وائرس پھیلنے کا تناسب 500افراد میں سے 200ہو چکا ہے۔ لیکن کیسز سامنے اس لیے نہیں آرہے کیوں کہ ہم نے ٹیسٹنگ کا عمل موخر کر رکھا ہے، جس شخص میں علامات پائی جائیں وہ اسپتالوں کا رخ کرنے کے بجائے اس سے خود نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
قصہ مختصر کہ اب کوئی ٹیسٹنگ کروا ہی نہیں رہا، لاک ڈاؤن کھلنے کی وجہ سے اب کوئی ایس او پیز پر عمل درآمد ہی نہیں کر رہا، اب تو بینک جیسی پبلک پلیس پر بھی ماسک کی پابندی نہیں کی جا رہی، کہیں ہینڈ سینی ٹائزر استعمال نہیں ہورہا، کہیں کورونا اسپرے نہیں کیا جا رہا۔
سوال یہ ہے کہ جب ہر ملک میں کورونا کی دوسری اور تیسری لہر آرہی ہے تو پاکستان اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے، جب کہ ہمسایہ ملک بھارت میں آج بھی روزانہ 2لاکھ نئے مریض سامنے آرہے ہیں تو ہم اسے کیوں آسان لے رہے ہیں، حالانکہ اُن کا اور ہمارا کلچر، جسامت اور رہن سہن ایک جیسا ہے، اگر وہاں تباہی مچا رہا ہے تو یہ پاکستان میں کیوں نہیں آسکتا۔
اور ابھی کل کی خبر ہے کہ بھارت میں مرکزی وزیر مملکت برائے ریلوے سریش انگاڈی کورونا سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ لہٰذا اگر پاکستان میں معجزاتی طور پر کورونا وائرس کے مریضوں میں کمی واقع ہوئی ہے تو ہمیں اس کو ہضم کرنا چاہیے ناکہ شادی ہال اور اسکول کھول دینے چاہئیں، اب جب کہ گلی محلوں میں اسکول کھل گئے ہیں اور یکم اکتوبر سے چھوٹے بچوں کے لیے بھی اسکول کھل رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس سے بچ سکتے ہیں؟
حکومت کہاں کہاں ایس او پیز پر عمل کروائے گی؟ اور پھر کے پی کے، کے 20سے زائد اسکولوں کو کورونا کی وجہ سے بند کرنا پڑا ہے، پھر اگر شادی ہال میں شادیاں بھی شروع ہو گئیں تو کون ایس او پیز پر عمل کروائے گا، معذرت کے ساتھ جس نے 20، 30ہزار کا میک اپ کیا ہوگا وہ کیوں کر ماسک پہنے گا۔ اور شادی ہالوں میں بچے بھی بکثرت موجود ہوتے ہیں اُن کو کون ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کی ذمے داری لے گا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ پیشگی اطلاع کے ساتھ کم و بیش ایک ماہ کا مکمل لاک ڈاؤن لگائے ورنہ خدانخواستہ ہم کہیں بری طرح پھنس نہ جائیں۔
اور لاک ڈاؤن کا عمل شاید قارئین کو برا لگے لیکن ہمارا یہی Survivalہے، اگر نہیں یقین تو آپ پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں کا معائنہ کر لیں، جیسے یکم اگست کو کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ہزار پانچ تھی جو کہ دس اگست تک 539 تک پہنچ گئی جس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ کورونا وائرس کے ملک میں متاثرہ افراد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی تھی، اسی سبب حکام نے عوام پر سے لاک ڈاون کی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
31 اگست میں یہ تعداد صرف 231 افراد تک رہ گئی جس نے یہ ثابت کیا کہ حکومت کا لاک ڈاون ہٹانے کا فیصلہ درست تھا، مگر حکومتی افراد کی جانب سے بار بار یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ کورونا کم ضرور ہوا ہے ختم نہیں ہوا لہٰذا ایس او پیز کے اوپر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
مگر عوام نے اس بات کو کسی طرح کی بھی اہمیت نہ دی، یکم ستمبر کو کورونا کے مریضوں کی تعداد 300تھی جو کہ ماہ اگست کے مقابلے میں زیادہ تھی مگر بہت زیادہ نہ تھی اس وجہ سے لوگوں نے اس بڑھتی ہوئی تعداد کو خاص اہمیت دی جس کے سبب سولہ ستمبر تک یہ تعداد 665 افراد تک جا پہنچی اور بیس ستمبر کو بھی مزید 640نئے مریض رپورٹ ہوئے۔
ماہ ستمبر میں مریضوں کی تعداد میں اس اضافے نے حکومتی حکام میں تشویش کی لہر دوڑا دی یہاں تک کہ حکومت سندھ نے تعلیمی اداروں کے کھلنے کے دوسرے مرحلے کو جو کہ 21ستمبر سے کھلنے تھے موخر کرنے کا اعلان کر دیا۔ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے واقعات نے عوام کے اندر دوبارہ سے اس خیال کو پیدا کر دیا ہے کہ کیا ملک میں دوبارہ سے کورونا وائرس کی دوسری لہر کے سبب لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے مختلف افواہیں بھی جنم لینے لگیں۔
اس حوالے سے حکام مکمل لاک ڈاؤن کے بجائے اسمارٹ لاک ڈاون کے آپشن پر کام کر رہے ہیں اور صرف ان علاقوں میں لاک ڈاؤن لگانے کے حق میں ہیں جہاں کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہو۔ مگر یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب کہ عوام ایس او پیز پر مکمل طور پر عمل درآمد کریں ان کے تعاون کے بغیر اس بیماری کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا آنے والے وقت میں لاک ڈاؤن کا لگنا اور نہ لگنا مکمل طور پر ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
بہرکیف بات محض اتنی ہی نہیں ہے کہ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی کورونا کی دوسری لہر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ پوری دنیا نے جس طرح سے پہلی لہر کے مضمرات کو بھگتا ہے، دوسری لہر کے مضمرات اس سے کہیں زیادہ شدید ہوں گے۔ فلو سے ہر برس پوری دنیا میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد اموات ہوتی ہیں۔
کورونا کے ساتھ مل کر اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوجائے گا اور یوں دنیا بھر میں خوف و دہشت کی ایک نئی لہر پیدا ہوگی۔ خوف و دہشت کی اس لہر کو مزید اثر انگیز بنانے کے لیے میڈیا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے گا۔ کس طرح سے اچانک پوری دنیا کو بند کردینا ہے، اس کا کامیاب مظاہرہ ہم کورونا کی پہلی لہر میں دیکھ چکے ہیں۔
کورونا کی گزشتہ لہر میں ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں نے اور ترقی پذیر ممالک میں مخیر حضرات نے لاک ڈاون کے نتیجے میں ہونے والی معاشی مشکلات کے حل میں اہم کردار ادا کیا تھا تاہم اس مرتبہ نہ تو حکومتیں اور نہ ہی مخیر حضرات یہ کردار ادا کرسکیں گے کیوں کہ ابھی تک کوئی بھی گزشتہ معاشی دھچکے سے سنبھل نہیں سکا ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مخیر حضرات کی انفرادی کوششوں کے علاوہ سماجی تنظیموں نے متاثرہ افراد کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ لہٰذاہمیں اپنے تئیں بھی اقدامات کرنے چاہئیں، اور حکومت کو بھی چاہیے کہ کم از کم ایک ہفتہ پہلے اعلان کردے کہ فلاں تاریخ کو لاک ڈاؤن لگایا جارہا ہے تاکہ کسی کو اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔
دریں حالات اس کے واحد علاج یعنی احتیاط کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنا ہو گا اور یہ احتیاط ابھی سے کرنا ہو گی نہ کہ اس وبا کے حملے کے بعد۔ حکومت اس حوالے سے فوری اور موثر اقدامات کرے۔