کورونا کی وباء سے نمٹنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے لاک ڈائون کو مزید 2ہفتے بڑھا دیا، چند شعبہ جات کو جزوی طورپر کھول کر وفاق نے اس معاملے میں تھوڑی لچک بھی دکھائی لیکن سندھ سخت لاک ڈائون کا سب سے بڑا حامی نظر آیا، جو کہ خوش آیند بات ہے، کیوں کہ ڈبلیو ایچ او، چینی ماہرین کی ٹیمیں اور دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر بضد ہیں کہ جب تک اپریل کا پورا مہینہ لاک ڈائون نہیں ہو جاتا ہم اس وباء سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
چینی ماہرین جنھوں نے اپنے ملک میں لاک ڈائون کے ذریعے ہی قابو پایا، نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس معاملے میں غفلت کے مرتکب ہوئے مرنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔ لہٰذاسمجھداری اسی میں ہے کہ فی الوقت جب تک کورونا کے نئے مریض جو ابھی تک روزانہ اوسطاً 3، 4سو کی تعداد میں بڑھ رہے ہیں تب تک کرفیو نما لاک ڈائون بہت ضروری ہے۔ ورنہ بقول شخصے امریکا، اٹلی، اسپین یا فرانس کی طرح ہمارے ہاں بھی لاشیں تنکوں کی طرح گریں گی اور قبرستان کے قبرستان چھوٹے پڑ جائیں گے۔
خیر غریب ملکوں میں ان تمام معاملات میں، ایک چیلنجنگ ماحول ہوتا ہے۔ ان ممالک میں تعلیم تو ہوتی نہیں ہے اس لیے عوام کا مکمل رجحان مذہب کی طرف ہوتا ہے اور ان ممالک میں مذہبی عناصر Dominentہوتے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں یا اسی صورتحال کی جانب جا رہے ہیں۔
علما نے پہلے ہی دن سے اس سارے معاملے کو مذہبی طبقے کے "مفاد" کی نظر سے دیکھا، انسانی جان کی حفاظت کے پہلو سے نہیں! ساری فقاہت اس مسئلے پر مرتکز رہی کہ مساجد کے بارے میں کیا احکام ہیں، انسانی جان کی حفاظت توجہ کا مرکز نہ بن سکی۔ جب عرب ممالک کی تمام مساجد اور عبادت گاہیں بدستور بندہیں، خانہ کعبہ کا طواف رک چکا ہے، ویٹی کن سٹی مکمل بند ہے، تو پاکستان میں کیوں اس کے برعکس فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ بقول شاعر
دیکھ میں ہو گیا بدنام کتابوں کی طرح
میری تشہیر نہ کر بس تو جلا دے مجھکو
میرے خیال میں ہم ابھی تک یہیں پھنسے ہیں کہ " چیچک کی وبا کو کالی ماتا کا قہر سمجھا جاتا ہے۔۔ چھوت چھات کا تصوراہم ہے"، "تانبے کے برتنوں کو مانجھ کر استعمال کرناچاہیے" اور "سمندر پار جانے اور آنے والوں کو چنڈال سمجھا جائے"، لہٰذا یہاں میں گزشتہ کئی سالوں والا رٹہ رٹایا جملہ ہی کہوں گا کہ اسٹیٹ اپنی رٹ مضبوط کرے، اور جو مولانا حضرات کہتے ہیں کہ کورونا وائرس سے کچھ نہیں ہوتا، یا مساجد میں عبادت کرنے سے کورونا وائرس نہیں پھیلتا تو میرے خیال میں انھیں سب سے پہلے بطور والنٹئیراسپتالوں میں خدمات سرانجام دینی چاہیے۔
حکومت ان حضرات کو اسپتالوں میں تعینات کرتے ہوئے کہے کہ ہمارے پاس اسٹاف کم ہے اس لیے ان کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا حکومت اپنی رٹ مضبوط کرے اور ڈھیل نہ دکھائے ورنہ آج حالات یہ ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے جناح اسپتال میں 15دنوں میں 300 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ انھیں بھی کورونا ہی تھا، کیوں کہ ان کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہو چکے تھے، اور یہ بات ڈاکٹرز کو محض ایکسرے کرنے سے معلوم ہوئی۔ پورے پاکستان میں چھوٹے بڑے دس ہزار سے زائد اسپتال ہیں، کسی کے پاس اعداد و شمار اور سہولیات نہیں ہیں کہ وہ بتا سکے کہ یہ مریض کورونا کے تھے یا کسی اور بیماری سے مرے ہیں۔
بہرکیف ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کا کوئی جاننے والا اس مرض کا شکار ہوا ہے؟ کیا آپ نے کورونا کا کوئی مریض دیکھا ہے؟ ایسے میں مجھے کالج کے دنوں کا بارہا دہرایا ہوا لطیفہ یاد آجاتا ہے۔ ایک شخص نے ریل گاڑی کے سفر کے دوران دوسرے مسافر سے پوچھا کہ آپ کو بھوتوں پر یقین ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں مجھے بھوتوں پر یقین نہیں ہے۔
سوال پوچھنے والے نے کہا کہ مجھے بھی نہیں ہے اور پھر بیٹھے بیٹھے غائب ہو گیا۔ وبا کسی عفریت کی طرح، کسی بد دعا کی طرح نظر نہیں آتی مگر آپ کے چاروں طرف ہوتی ہے۔ انسان بہت سی بیماریوں کا علاج دریافت کر چکا ہے لیکن وائرس سے ہونے والی بیماریوں کا علاج صرف انسان کی ذاتی قوت مدافعت میں موجود ہے۔ ویکسین بھی قوت مدافعت ہی کو مہمیز کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ خدا ستار العیوب اور غفور الرحیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ اسے اپنی سب مخلوقات عزیز ہیں۔ وہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا مگر حقوق العباد معاف نہیں کرتا۔
آج حقوق العباد کا تقاضا ہے کہ اجتماعی عبادات کی ضد کر کے انتظامیہ کے لیے، اپنے گھر والوں، محلے والوں اور دیگر شہریوں کے لیے مسائل میں اضافہ نہ کریں۔ کورونا ایک وبائی مرض ہے اور اس سے بچنے کے لیے گھر بیٹھیے۔ انتظامیہ کے لیے ایک نئی آزمائش کھڑی کرنے کے بجائے اگر نماز گھر ہی میں ادا کر لی جائے تو کتنا بہتر ہو۔ لہٰذاتھوڑا رحم کریں اپنے اوپر بھی، اپنی فیملی کے اوپر بھی اور اس ملک کے عوام پر بھی۔ اگر کسی اور کو نہیں دیکھنا تو کم از کم اپنے سے سو فیصد زیادہ کوالیفائیڈ ممالک کو دیکھ لیں، کہ وہ کس طرح مجبور ہو چکے ہیں، اُن کی پوری کی پوری سائنس جواب دے گئی ہے۔ جب کہ اُن کے برعکس ہم ابھی تک ان چکروں میں پڑے ہیں کہ کس نے کتنی تقریریں کی ہیں اور کس نے کتنی؟
ہمارے کپتان نے بھی رٹ مضبوط کرنے کے بجائے چند ایک سیاستدانوں کو چھوڑا ہوا ہے کہ وہ زبان بازی اور پریس کانفرنس کے ذریعے ماحول کو گرمائے رکھیں، اور اپوزیشن کی ہر ایری غیری بات پر بڑھ چڑھ کر بیان داغیں۔ حد تو یہ ہے کہ صدر، وزیراعظم اور صوبائی حکومتیں رمضان المبارک کی آمد سے پہلے مولانا حضرات سے مذاکرات کرنا چاہ رہی ہے۔ حالانکہ حکومت نے اگر لاک ڈائون کیا ہے تو سب کے لیے کیا ہے؟ اچھی بات تو یہ ہے کہ سندھ حکومت اس وقت اپنی رٹ کو زیادہ مضبوط کررہی ہے جب کہ وفاق اور باقی صوبے صرف پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں، اس کے سوا وہ کچھ نہیں کر رہے۔ اور بادی النظر میں وفاق حالات کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے!