Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dawe, Waday Aur Laare

Dawe, Waday Aur Laare

پاکستان آبادی کے لحاظ سے چین، بھارت، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد پانچویں نمبر پر موجود ہے جس کی آبادی 22کروڑ سے زیادہ ہے، ان 22کروڑ افراد میں سے 1فیصد بڑے کاروباری افراد، 5فیصد آبادی چھوٹے کاروباری افراد، 2 فیصد زمیندارو جاگیردار، جب کہ 52فیصد درمیانہ طبقہ اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 40فیصد سے زائدطبقہ یعنی 9کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

پاکستان میں متمول (درمیانہ) طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 50 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا80 فیصد سے زائد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔ جب کہ تعلیم، صحت اور دیگر چیزوں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں بچتا۔

الغرض پاکستان کی آبادی کا 8فیصد حصہ خوشحال جب کہ 92فیصد حصہ "عام آدمی" جیسی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس لیے یہاں جب بھی کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے یا "رات گئے" تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اُس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔

گزشتہ ہفتے عوام اُس وقت مایوسی کی انتہا کو پہنچ گئے کہ جب عمران خان عوام سے خطاب کرنے آئے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ اگر پاکستان کے دونوں بڑے سیاسی خاندان اپنی دولت کا آدھا حصہ بھی وطن واپس لے آئیں تو وہ بھی بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں نصف کر دینگے۔ اُن کی اس بات کو لے کر سب سے پہلے تو عام آدمی کے اوسان خطان ہوگئے اور ایک وقت کے لیے تو ایسے لگا جیسے نیب یا دوسرے احتساب کے ادارے ختم کر دیے گئے ہیں۔

یا پھر ایسے لگا جیسے عوام اب اُن کی اور اُن کی کابینہ کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ الغرض یہ بڑا معصومانہ سا عذر تھا۔ کہ ہم نے اپنی تمام توانائیاں اس حوالے سے صرف کردیں کہ بیرون ملک سے پیسہ واپس لایا جائے، تمام اداروں کو اس کام میں جھونک دیا، مہنگے سے مہنگا وکیل ہائیر کیا، سرکاری خرچے پر بیرون ملک ٹیمیں بھیجی گئیں۔ لیکن پتہ چلا کہ بات اب ترلوں تک آچکی ہے اور غریب و عام آدمی اب صرف آنسو ہی پونچھ سکتا ہے کہ بقول شاعر

بہنا کچھ اپنی آنکھ کا دستور ہوگیا

دی تھی خدا نے آنکھ پہ ناسور ہوگیا

مطلب اگر التجا ہی کرنا تھی، تو عوام خود کرلیتے! پھر آپ نے کیوں تکلیف کی! اور پھر مذکورہ خطاب میں جو باتیں بتائی گئیں، تین سال پہلے بھی یہی باتیں دہرائی جا رہی تھیں جیسے قوم سے خطاب کو اگر چار حصوں میں تقسیم کر لیا جائے تو پہلے حصے میں وہی پرانی باتیں دہرائی گئیں کہ جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو معیشت کی بدحالی کا کیا عالم تھا۔

وہی بیس ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور قرضوں کی دہائی۔ دوسرے حصے میں کورونا وائرس کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالی اور اپنی"بہترین"پالیسیوں پر داد وصول کرنا چاہی۔

تیسرے حصے میں بتایا کہ دنیا میں مہنگائی 50فیصد بڑھ گئی ہے جب کہ پاکستان میں یہ شرح صرف 9فیصد بڑھی ہے۔ اور یہ ہر گزنہیں بتایا کہ امریکا، جرمنی، چین اور برطانیہ کے شہریوں کی فی کس آمدنی اور ایک پاکستانی کی فی کس آمدنی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خیر چوتھے حصے میں بتایا کہ دو کروڑ خاندانوں کے لیے 120 ارب کی سبسڈی۔ آٹا، گھی اور دالیں مارکیٹ ریٹ سے تیس فیصد سستی ملیں گی۔

جو باتیں عوام کو بتائی گئیں یہ تو عوام کو پہلے ہی پتا تھیں، کہ یہ دونوں برسر اقتدار خاندان کرپٹ ہیں، عوام نے انھی خاندانوں کو چھوڑ کر آپ کا ساتھ دیا تھا، لیکن عوام اس خوش فہمی میں مارے گئے کہ اُن کا خیال تھا کہ آپ نے کوئی اس حوالے سے ہوم ورک کیا ہوا ہے، کہ ملک کا نظام کیسے چلایا جائے گا؟ یا ان خاندانوں کو نکیل کیسے ڈالی جائے گی، یا دوسرے الفاظ میں عوام کے حالات کس طرح بہتر کیے جا سکیں گے۔

الغرض قوم دکھی ہے کہ جب آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے تو یہ ادراک آپ کو پہلے کیوں نہیں تھا؟ آپ نے اس حوالے سے کوئی تھنک ٹینک کیوں نہیں بنایا کہ جب کہ آپ کو حکومت ملنی ہے تو آپ کیسے پرفارم کریں گے! آپ کو علم تھا کہ شوگر مل والے کیسے عوام اور حکومت کو لوٹتے ہیں، کیسے وہ بلیک میل کر کے حکومت سے سبسڈی لیتے ہیں؟ کیسے فلور مل مافیا لوٹتی ہے، کیسے وہ گندم کا ذخیرہ کرکے گندم کا بحران پیدا کرتی ہے، یا کیسے پٹرولیم مافیا تیل کے نرخ بڑھانے کے لیے بیوروکریسی کا استعما ل کرتی ہے۔ یا کیسے بیوروکریسی کی کرپشن میں رکاوٹ بننا ہے۔

یہ بات سب نے مان لی کہ آپ ایک ایماندار آدمی ہیں، لیکن آپ کی ایمانداری سے عام آدمی کو کیا لینا دینا جب وہ نچلی سطح پر ڈلیور ہی نہیں ہورہی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں رپورٹنگ کیا کرتا تھا، تو اُس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے کا انٹرویو کرنے گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اس چیز کا حلف دینے کے لیے تیار ہوں کہ میں نے کبھی ایک روپیہ رشوت نہیں کھائی، تواس پرراقم نے جواب دیا کہ عام آدمی کو اس کا کیا فائدہ ہے؟ عام آدمی تو آج بھی بغیر پیسے کے کوئی فائل اپنے نام نہیں کروا سکتا۔ یا کوئی بندہ بغیر پیسے رجسٹری نہیں کروا سکتا۔

مطلب آپ کے ایماندار ہونے کا کیا فائدہ ہے؟ اگر آپ پیسہ نہیں کھا رہے تو اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ انھیں تو وہی چینی جو 60کی ملتی تھی آج ڈیڑھ سو روپے کلو مل رہی ہے، انھیں جو پٹرول 80روپے ملتا تھا آج 140 روپے فی لیٹر دستیاب ہے، انھیں جو گھی آئل 170روپے فی لیٹر یا کلو ملتا تھا آج وہی 400روپے کلو مل رہا ہے، انھیں جو گندم یا آٹا 40 روپے کلو دستیاب تھا آج وہی 100روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔

الغرض کوئی ایسی چیز نہیں جس کے ریٹ دو گنا یا تین گنا نا بڑھ گئے ہوں۔ بجائے نظام کو بہتری کی جانب دھکیلنے کے آج بھی آپ کا سارا زور پنجاب کے آئی جی تبدیل کرنے، یا چیف سیکریٹری تبدیل کرنے میں لگ رہا ہے، حتیٰ کہ آپ نے آتے ساتھ ائیرپورٹ پر پروٹوکول بند کیا تھا، لیکن وہ پھر سے شروع ہوگیا ہے، 2نمبر گاڑیاں ابھی بھی ہر جگہ دستیاب ہیں الغرض بقول شاعر کیا کیا شکوے کیے جائیں

گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

یعنی ہم جیسے لوگ جنھوں نے ہر لمحہ تبدیلی کا ساتھ دیا وہ آج بھی تحریک انصاف سے کوئی نہ کوئی اُمید لگائے بیٹھے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کچھ کر کے تو دکھائے، آج ہر کوئی آپ کا دفاع کر نے سے قاصر ہے، آپ کا ساتھ دینے والے لوگ آپ کا ہر جگہ، ہر ریسٹورنٹ، ہر گلی محلے، یا ہر چوک چوراہے پر کیسے آپ کا دفاع کریں۔ اس لیے جناب آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!