آج کل پاکستان میں "پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی"کے نام سے خاصا شور شرابہ ہو رہا ہے، حکومت بضد ہے کہ وہ اس بل کو پاس کرا کے رہیں گے جب کہ صحافی برادری سراپا احتجاج ہے کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
دور جدید میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے بعد ریاست کا چوتھا ستون میڈیا کو قرار دیا جاتا ہے، جسے معاشرے کا آئینہ کہا جاتا ہے لیکن موجودہ حکومت کے دور میں اس آئینے کی شکل بگاڑنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں، اُن سے کون واقف نہیں، کئی چینل و اخبارات سخت مالی دباؤ کا شکار ہوکر بند ہوگئے، ہزاروں صحافی بے روز گار ہوگئے اور کئی ادارے مقروض ہوگئے۔ پاکستان صحافت کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں 138ویں پوزیشن سے145ویں پوزیشن پر چلا گیا۔ حکومت نے روش تبدیل نہ کی تو وہ مزید دباؤ کا شکار ہوجائے گی۔
میرا خیال ہے کہ امریکی طرز پر "فیکٹ چیک اتھارٹی " بنا دی جائے تو بہتر ہوگا۔ حکومت نے ملک میں ذرایع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ایک ریگولٹر بنانے کی تجویز دی ہے۔
حکومت کو غلط خبر نشر ہونے پر صحافتی ادارے پر 25 کروڑ جب کہ صحافی پر ڈھائی کروڑ روپے تک جرمانے اور تین سال قید تک سزا دینے کا اختیار ہے۔ حکومت کاایسے وقت میں اس قسم کے بل لانا جب ہر طرف مہنگائی کا دور دورہ ہو، جرائم کی بھرمار ہو، ہر محکمے میں بدانتظامی عروج پر ہو، پنجاب میں گڈگورننس کے نام پر آئی جی اور چیف سیکریٹریز کی تبدیلی کا جمعہ بازار لگا ہو تو ایسے حالات کی شاعر درست انداز میں نشاندہی کر رہا ہے کہ
آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں
کچھ آپ کی طر ح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں
یعنی حکومت کو خوف ہی نہیں کہ عوام میں اُس کی مقبولیت کا گراف کہاں جا رہا ہے؟ ابھی اسی ہفتے ملک بھر میں 41کنٹونمنٹ بورڈز کے 218 وارڈزمیں بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھ لیں۔ یہی نہیں بلکہ بلدیاتی الیکشن بھی سر پر ہیں، اُس کے بعد جنرل الیکشن بھی دور نہیں ہیں تو ایسے میں اس قسم کے بل؟ توبہ استغفار پڑھنے کو ہی جی چاہتا ہے!
معذرت کے ساتھ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وزیراعظم صاحب کو ایسے نادر مشورے کون دیتا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بل لانا ہی سرے سے غلط ہے، دوسری بات اگر آپ بل لے بھی آئیں تو کیا آپ کسی صحافی یا صحافتی ادارے کو سزا دے پائیں گے؟ کیا حکومت اتنی مضبوط ہے؟ اور پھر پیمرا نے آج تک جتنے بھی جرمانے کیے ہیں، کیا وہ ادا ہوئے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ آپ یہ پتہ کیسے لگائیں گے کہ فیک نیوز کونسی ہے؟ کیا فیک نیوز وہ ہوگی جسے حکومت کہہ دے کہ یہ فیک نیوز ہے، یعنی حکومت جسے سچ قرار دے، وہ سچ ہے۔
سب کو علم ہے کہ فیک نیوز کہاں سے پیدا کی جاتی ہیں لہٰذا فیک نیوز یا "ییلو جنرلزم " جہاں سے شروع ہوتی ہے اُسے پکڑا جانا چاہیے! کیوں کہ ہر غلط خبر کے پیچھے کوئی نہ کوئی مائنڈ سیٹ ہوتا ہے، جس کا کام ہی لوگوں کو گندا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے اُن بااثر انفرادی لوگوں یا اداروں کو پکڑا جائے اور عوام کے سامنے لایا جائے جو خرابی پیدا کرتے ہیں۔
جیسے حکومت نے پچھلے دنوں سو سے زائد انڈین بیسڈ ویب سائٹس کو پاکستان میں بند کرایا، وہ ایک احسن کام ہے، اگر کوئی بیرون ملک سے فنڈز لے کر غلط خبریں چلا رہا ہے تو محض الزامات سے نہیں کام نہیں بنے گا بلکہ اسے ثبوتوں کے ساتھ سامنے لانا اور سزا دلوانا چاہیے، جس کے لیے پہلے سے قانون موجود ہیں۔
مجھے یہ بتایا جائے کہ "کون" عمران خان صاحب کا "محسن خاص" ہے جو اس قسم کے نادر مشورے دیتا ہے، یقینا یہ "کون" اُن کا ہمدرد تو نہیں ہے البتہ دشمن ضرور ہے۔ اگر اس بل کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے مخالفین، صحافیوں، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کا کچھ بگاڑ سکیں گے تو میرے بھائی! آپ تو اُن کے سیاسی قائدین و کارکنوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو صحافیوں کا کیا بگاڑ سکیں گے۔
عوام کو بتایا جائے کہ نیب آج تک کس سیاستدان کو سزا دے سکا ہے؟ نہ آپ زرداری سے کچھ نکلوا سکے ہیں، نہ شریف فیملی سے۔ نہ آپ رانا ثناء اللہ کا کچھ بگاڑ سکے، نہ سعد رفیق کا، نہ خواجہ آصف اور نہ ہی کسی ادنیٰ سے کارکن سے کچھ نکلوا سکے ہیں۔ محض چند پرائیویٹ پارٹیوں سے نیب نے ریکوری کر کے انھی کے متاثرین کو رقم بانٹ دی ہے لیکن عوام کے ہاتھ میں کیا آیا ہے؟
بہرکیف عمران خان کا اگر کوئی حامی ہے تو وہ انھیں سمجھائے کہ آنے والے دنوں میں میڈیا کی انھیں سخت ضرورت پڑنے والی ہے، میڈیا پر اس قدر پابندیاں تو شاید ڈکٹیٹر شپ کے دور میں بھی نہیں لگی تھیں جتنی آج لگائی جا رہی ہیں۔ لہٰذا حکومت، عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ حد سے آگے نہ بڑھے۔