ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے؟ اہداف کیا ہیں؟ اور سمت کیا ہے؟ اس بارے میں خاص معلومات دستیاب نہیں مگر ایک بات تو طے ہے کہ ہمارا جھکاؤ امریکا کی جانب رہاہے اور امریکا کا انڈیا کی جانب۔
ہمارا جھکاؤ چین کی جانب ہے اور چین سی پیک کے حوالے سے ناراض ہے، ہمارا جھکاؤ ترکی کی جانب ہے اور ترکی کا جھکاؤ یورپ کی جانب، پھر کبھی ہمارا جھکاؤ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی جانب ہوتا ہے تو اُن کا اپنا جھکاؤ " مفادات" کی جانب ہو جاتا ہے۔ جب کہ اس ساری صورتحال میں ہماری خارجہ پالیسی "مولا جٹ ٹائپ " یعنی "ایبسیلیوٹلی ناٹ" پر اٹکی ہوئی ہے۔
دنیا ففتھ جنریشن وار جیت کر خوشی منا رہی اور سکستھ جنریشن وار فیئر کی تیاری کر رہی اور ہم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر نعرے میں مصروف ہیں۔ وقت اور حالات کہاں لے جائیں گے اس بارے میں خود حکومتی اہلکار بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
کمزور معیشت، بظاہر ناکام خارجہ پالیسی اور اندرونی جھگڑے کسی طور حالات کی سنگینی تو سمجھا رہے ہیں مگر نوشتہ دیوار کون پڑھے۔ ہم دُنیا سے بھلے بات کریں نہ کریں خود سے تو سوال کر سکتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت ریاست خود سے مذاکرات اور بات چیت کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمیشہ سے حساس اور پیچیدہ مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ایک مشکل خطے میں مشکل ترین تنازعات سے نبرد آزما ہونے میں خاص مہارت اور دانشمندی درکار ہوتی ہے۔ خطے میں پاکستان کی پوزیشن مثبت مواقعے بھی فراہم کرتی ہے۔ خارجہ پالیسی کا چہرہ اور اکثر محرک وزیر اعظم ہوتا ہے۔
پچھلے تین سال میں وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی پر اگر کوئی ایک لفظ سامنے آتا ہے تو وہ ہے غیر مستقل مزاجی۔ آغاز میں ہماری خارجہ پالیسی کا رُخ قدرے ٹھیک تھا، مگر پھر ہمیں سمجھ آگئی کہ پوری دنیا کی خارجہ پالیسی کا محور صرف اور صرف امریکا یا اُس سے جڑے بین الاقوامی ادارے ہیں۔ لیکن ہم نے تو امریکا ہی کو "ایبسیلیوٹلی ناٹ"کہہ دیا ہے تو پھر پیچھے کیا بچتا ہے؟
حکومت نے اپنے دور کے آغاز میں اسلامی ممالک میں اپنا ایک خاص تشخص بنانے کا عزم کیا۔ کئی ممالک کے سربراہ پاکستان بھی آئے خصوصاً سعودی ولی عہد اور وزیراعظم اس کے بعد ترکی، ملائیشیا اور ایران کے دورے پر بھی گئے جہاں بظاہر ان کی بھرپور پذیرائی بھی ہوئی۔ ایسے اشارے بھی دیے گئے کہ گویا وزیراعظم عالم اسلام میں کوئی بڑا مفاہمتی کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس مفاہمتی کردار میں تو خاص پیشرفت سامنے نہیں آئی مگر دوروں میں کمی آگئی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں وسطی ایشیا میں کثیر فریقی کانفرنس کے علاوہ کوئی دورہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی سربراہ مملکت نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہوا کہ اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں رہی جو حکومت کے آغاز کے دنوں میں دیکھی جا رہی تھی۔
وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ ہم ٹی ٹی پی سے بات چیت کرر ہے ہیں، صلح کر لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی دوران امریکی نائب وزیر خارجہ 7رکنی ٹیم کے ہمراہ پاکستان آگئیں۔ انھوں نے آتے ہی بیان دیا کہ "ہم پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے مضبوط شراکت چاہتے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ پاکستان بغیر کسی فرق کے تمام عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔" امریکی نائب وزیرخارجہ کا یہ بیان، پاکستان کے حوالے سے امریکی حکومت کی پالیسی کو واضح کر رہا ہے۔
یعنی ہماری مولا جٹ پالیسی کی وجہ سے امریکا خوش نہیں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا کے ساتھ تعلقات میں سردمہری قصداََ ہے؟ کیا ایسا کرنا ہمارے مفاد میں ہے؟ ان دونوں کا جواب حکمرانوں کے پاس ہی ہوسکتا ہے۔ ہماری طرف سے کچھ جذبات اور کچھ جلد بازی پر مبنی اشارے داخلی طور پر توحکومت کے لیے مقبولیت کا سبب بنے ہیں مگر واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سینیٹرز کا ایک بڑا گروہ پاکستان کے بارے میں منفی اقدامات کی تجاویز دے رہا ہے۔
پھر سی پیک جیسا منصوبہ بھی ہماری انا کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے، اور پھر ہم کسی بڑے منصوبے کے بعد چھوٹے چھوٹے منصوبوں کو بھول جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس خبر پر نہ تو توجہ دی گئی اور نہ ہی حکومت اسے کیش کرانے میں کامیاب ہو سکی کہ ابھی پچھلے ہفتے اسلام آباد، تہران، استنبول روڈ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا افتتاح ہوا ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد2011میں ترکمانستان میں منعقد ہونے والی اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن (ای سی او) میں رکھی گئی تھی۔ اس کے تحت ترکی، ایران اور پاکستان سے تجارت سڑک کے راستے شروع کی جانا تھی۔
یہ 5320 کلو میٹر کا راستہ ہے۔ 27 ستمبر کو کراچی سے نیشنل لاجسٹکس کمپنی کے ٹرک روانہ ہوئے اور 7اکتوبر کو بذریعہ ایران استنبول پہنچے جہاں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ ایران، پاکستان اور ترکی کے عہدیداروں کے علاوہ جنیوا سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل رگبی یونین کے سیکریٹری جنرل نے بھی شرکت کی۔ اس راستے کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایشیا سے یورپ میں تجارت کے لیے نہر سوئز کا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مارچ 2021 میں نہر سویز بند ہو جانے کے بعد یہ سوال اٹھائے جانے لگے تھے کہ کوئی متبادل اور سستا راستہ بھی تلاش کیا جائے تا کہ ایمرجنسی کی صورت میں دنیا کا نظام رک نہ جائے۔ اس حوالے سے اسرائیل بھی نہر سویز کی طرز پر ایک نئی نہر بنانے کا پرانا منصوبہ سامنے لے کر آیا جس کے لیے عرب ممالک کی حمایت کی ضرورت تھی۔ گو کہ دنیا نے اس منصوبے کی حمایت نہیں کی لیکن ایشیا کو یورپ سے ملانے کے لیے پاکستان، ایران اور ترکی کے راستے کو زیر بحث لایا گیا۔
اگرچہ زمینی راستہ سمندری راستے کا متبادل نہیں ہو سکتا لیکن ایمرجنسی صورتحال میں یہ بہترین آپشن کے طور پر ضرور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی یورپ کا حصہ ہے اور پاکستان اس راستے کے ذریعے اپنا سامان سڑک کے ذریعے یورپ بھجوا سکتا ہے۔ اس کی اہمیت صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ چین بھی اس سے مستفید ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ سی پیک بنانے کا مقصد بھی پاکستان تک رسائی اور یہاں سے یورپ تک سامان کی ترسیل کو کم خرچ میں ممکن بنانا تھا، جو اب زمینی راستے سے بھی ممکن ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان چین کے علاوہ ترکی کی دلچسپی بھی بلاوجہ نہیں ہے۔
ترکی چین کے ساتھ دیر پا تجارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن حکومت نے اس خبر کی تشہیر شاید اس لیے نہیں کی کیوں کہ اس پر سابقہ حکومت کی تختیاں لگنا تھیں، خیر یہ تو ہمارا مجموعی رویہ ہے کہ جس طرح ملکی منصوبے حکومتوں کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح ہر نئی آنے والی حکومتوں کو تمام ممالک کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات قائم کرنا پڑتے ہیں، اور دنیا میں ایسا عمل انتہائی جاہلانہ ہوتا ہے کہ آپ کبھی اپنی خارجہ پالیسی کو انتہا کا نرم کر لیں اور کبھی مولا جٹ ٹائپ پالیسی اپنا لیں اور گنڈاسا پکڑ کر زبردستی تعلقات ٹھیک کرنے لگ جائیں۔
ایسا کرنے سے آپ امریکا، چین، سعودی عرب یا یورپ سے حالات ٹھیک کرنا تو دور کی بات، صومالیہ کو بھی "لائن" پر نہیں لا سکتے۔ اس لیے خدارااندرونی جھگڑوں سے جیسے ہی فراغت پائیں، خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں اور دنیا کے ساتھ معاملات کا ازسر نو جائزہ لیں!