آج کل ن لیگ میں پاور پالیٹکس کا سوال ہر جگہ زیر بحث آتا ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے متاثر کن جلسے ہوئے، لیکن مایوس کن نتائج اور اس کے فوری بعد سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں شکست، ایک ایسے ضلع اور حلقے سے شکست، جہاں سے ناکامی کا تصور بھی شاید لیگی حلقوں کے لیے ممکن نہیں تھا۔
وہاں تحریک انصاف کے احسن سلیم بریار نے ن لیگ کے طارق سبحانی کو شکست دے دی۔ یہ حلقہ ن لیگ کے ہاتھوں سے 40سال بعد گیااور مجموعی طور پر تحریک انصاف کا یہ تاثر پیدا کرنا ہی تحریک انصاف کی کامیابی تھی کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے اور مختلف دھڑوں کو اعتماد میں لینے کی سیاست کی جائے تو الیکشن میں کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے بڑوں اور پالیسی سازوں کے لیے یہ وہ لمحہ ہے جب وہ سنجیدگی کے ساتھ سوچیں کہ ان کی جماعت کی سمت کیا ہے؟ کیا وہ جماعتی سطح پر پائی جانے والی کنفیوژن کو برقرار رکھ کر آیندہ عام انتخابات میں اترنے کی غلطی کر سکتے ہیں؟ مسلم لیگ ن کا ووٹر اور سپورٹر، دونوں ہی اس بات سے پریشان نظر آتے ہیں کہ ان کے لیڈر مستقبل میں کیا سیاسی لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں اسی وجہ سے سرے سے ہی ختم ہوگئیں۔ آپ دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑیں، ماضی کی "مسلم لیگی جماعتوں " کو ہی دیکھ لیں۔
جیسے کبھی "کونسل مسلم لیگ "بھی تھی، اس جماعت کی سربراہ فاطمہ جناح تھیں، یہ جماعت 1962میں ایوب خان کے خلاف اپوزیشن نے متحد ہو کر قائم کی، اپوزیشن نے متحد ہوکر فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا لیکن یہ جماعت ہار گئی، پھر اس جماعت نے 1970 کے الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اس کے صدر تھے، 1970 میں وہ کونسل مسلم لیگ کی جانب سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم ملک میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد وہ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوکر انگلستان میں پاکستان کے سفیر بن گئے اور یوں انھوں نے سیاست میں اپنی بساط لپیٹنے کے بعد کونسل مسلم لیگ کی بساط بھی لپیٹ دی۔
پھر ایک "پاکستان مسلم لیگ فنکشنل" تھی اس دھڑے کا قیام 1973میں کونسل اور کنونشن مسلم لیگ کے انضمام سے عمل میں آیا اور پیر پگارا کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں محمد ضیاء الحق کے فوجی دور میں تمام مسلم لیگوں کو اکٹھے کیا گیا اور محمد خان جونیجو کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
اس صورت حال میں پیر پگارا نے 1985 میں اپنی علیحدہ جماعت تشکیل دی جس کو پاکستان مسلم لیگ (ف) کہا گیا(مسلم لیگ (ف) اس لیے نام منتخب کیا گیا، چونکہ فنکشنل مسلم لیگ پہلے سے رجسٹرڈ تھی اس لیے اُس کا شروع کا حرف استعمال کیا گیا) مئی 2004 میں مسلم لیگ (ف) نے مسلم لیگ (ق) اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر متحدہ مسلم لیگ قائم کی، تاہم صرف 2 ماہ بعد جولائی 2004 میں پیر پگارا اور مسلم لیگ (ف) نے چوہدری برادران سے اختلاف کے بعد متحدہ مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر لی، لیکن یہ جماعت بعد میں بھی زیادہ مقبولیت اختیار نہ کر سکی۔
پھر پاکستان مسلم لیگ ج یا جونیجو 1985 میں قائم ہوئی، 1993 میں حامد ناصر چٹھہ، منظور وٹو اور اقبال احمد خان نے اسے پاکستان مسلم لیگ (ج) کے نام سے دوبارہ تشکیل دیا۔ حامد ناصر چٹھہ اس کے صدر اور اقبال احمد خان معتمد عام بنے۔ 2004کے انضمام میں یہ بھی پاکستان مسلم لیگ میں ضم ہو گئی۔ پھر پاکستان مسلم لیگ جناح بنی، 1995 میں منظور وٹو نے حامد ناصر چٹھہ سے اختلافات کے باعث الگ گروہ تشکیل دیا جو پاکستان مسلم لیگ جناح کہلایا۔ 2004 میں یہ لیگ بھی پاکستان مسلم لیگ میں ضم ہوئی۔ پھر 2002 میں پاکستان مسلم لیگ(ض) یا ضیاء الحق بنی جو سابق پاکستانی صدر ضیاء الحق کے نام پر رکھی گئی اس کے موجودہ سرپرست اعجاز الحق ہیں، اس جماعت کا وجود بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان مسلم لیگی سیاسی جماعتوں کی ایک مشترکہ اور متفقہ چیز یہ رہی ہے کہ ان میں سے بیشتر سیاسی جماعتیں ڈکٹیٹر شپ کی نرسری میں پلی بڑی ہیں۔ اور رہی بات ن لیگ کی تو ن لیگ ان جماعتوں سے نسبتاََ بڑی مسلم لیگی جماعت ہے، لہٰذایہ جماعت بھی اپنی اُسی ڈگر پر چل پڑی ہے، جس پر چلتے ہوئے باقی مسلم لیگیں ختم ہوئی تھیں، جیسے موجودہ مسلم لیگ ن بھی اپنے وجود کے قیام کو بھول کر اُنہیں قوتوں سے ٹکرا رہی ہے جن کی وجہ سے اُس کا وجود قائم ہوا۔ اور پھر بیانیہ بھی ایسا ہے کہ جس کو اپنی ہی جماعت کے 80فیصد لوگ ماننے کو تیار نہیں!پھر اسے وراثتی جماعت سمجھ کر چلایا جا رہا ہے۔
سیاست میں مسلم لیگ ن کو ایک بڑا ڈس ایڈوانٹیج حاصل ہوچکا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعت ہے اور سردست اس کے اقتدار میں آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور پھر شہباز شریف جس انداز کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، مریم نواز اسے غلط سمجھتی ہیں۔ فیصلہ کن قوت نواز شریف کے ہاتھ میں ہے، مگر وہ باہر بیٹھے ہونے کی وجہ سے کئی معاملات میں اتنے موثر ثابت نہیں ہو پا رہے۔ اگر کوئی سیاسی کرشمہ گری نہ دکھائی گئی تو اگلے عام انتخابات کے موقع پر یہ اختلافات بڑھیں گے۔
بجائے اس کے کہ اس کی جماعت کی تنظیم سازی کی جاتی، یا اُسے منظم کیا جاتا، اُلٹا جماعت میں شخصی ڈکٹیٹر شپ پیدا کردی، اور خاندان کے تین چار بڑوں کے درمیان خود ساختہ اقتدار کی جنگ چھیڑ دی۔ یہ "جنگ" وراثتی جنگ ہے جو سیاسی جماعتوں کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں۔ آپ خود دیکھ لیں، پیپلزپارٹی میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی میں محترمہ بے نظیر کے زرداری صاحب نہ آتے یا، بلاول کے ساتھ زبردستی بھٹو نہ لگایا جاتا تو پیپلزپارٹی کی حالت زیادہ بہتر ہونی تھی۔
اور دوسری بات یہ کہ ان جماعتوں کی مرکزی کونسل جس نے اہم ترین فیصلے کرنا ہوتے ہیں، وہ بھی ان کے تابع ہی ہوتی ہے، اُس کی اہمیت بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اور حد تو یہ ہوتی ہے کہ ان مرکزی کونسلوں میں تمام افراد ایسے شامل کیے جاتے ہیں، جو خوشامدی ہوں، یا صرف جی حضوری کہنے کے عادی ہوں، اب دیکھیں، ن لیگ میں صرف اور صرف مریم نواز، حمزہ شہباز، شہباز شریف یا میاں نواز شریف کی باتیں ہو رہی ہیں، سعد رفیق، راجہ ظفر الحق یا دیگر عہدیداران جنھوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں، اُن کی بات کیوں نہیں ہوتی؟