عید سے ایک دن پہلے نور مقدم کو جب قتل کیا گیا تھا، یوں آغاز میں یہ خبر عید الاضحی کی خوشیوں اور چھٹیوں کی نذر ہوگئی، تمام مقامی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہ خبرایک دوبار چلنے کے بعد گُم ہوگئی، مگر غیر ملکی میڈیا اس خبر کے ہر پہلو کا جائزہ لیتا رہا، اور بار بار یہ خبر نشر کرتا رہا۔ چونکہ نور مقدم قتل کے بارے میں مکمل معلومات نہیں مل رہی تھیں۔
اس لیے میں خود بھی ورطہ حیرت میں تھا کہ آخر غیر ملکی میڈیا اسے زیادہ کیوں اُٹھا رہا ہے، پھر جب وطن عزیز میں عید کا بخار ٹوٹا تو ہمارے میڈیا نے بھی اس خبر کو اُٹھانا شروع کردیا اور پھر اس طرح یہ خبر ایک" قومی خبر" بن گئی اور ہر کوئی اس خبر سے "باخبر" ہو گیا۔ ویسے تو اس کیس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہوگا، مگر پھر بھی نور مقدم قتل کیس کو اگر مختصراََ بیان کروں تو یہ کیس بے حسی، تربیت کے فقدان اور دولت مند خاندانوں کی اخلاقی گراؤٹ کا نوحہ نظر آتا ہے۔
بدقسمت نور مقدم، شوکت مقدم کی بیٹی ہیں جو پاکستان نیوی کے سابق آفیسر ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد جنوبی کوریا اور قازقستان میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ نور 20 جولائی کی شام ہولناک اور بیدردانہ طریقے سے قتل کردی گئی۔ اس قتل نے پورے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ قتل مبینہ طور پر ایک دوسری امیر فیملی جعفر برادرز کے صاحبزادے ظاہر ذاکر جعفر نے کیا، میڈیا کے مطابق اس دوران نور نے جان بچانے کے لیے روشن دان کھول کر پہلی منزل سے چھلانگ لگا دی، وہ زخمی ہوئی، مگر قاتل اُسے گھسیٹتے ہوئے دوبارہ اوپر لے گیا، اس دوران اہل محلہ اور گھریلو ملازمین یہ سب منظر دیکھ رہے تھے، مگر سب نے چپ سادھے رکھی کہ
خاموش رہو! "نور قتل ہو رہی ہے"
قصہ مختصر کہ جب وہ قتل کر چکا تو اتنے میں ایک مقامی تھراپی سینٹر کے ملازمین جنھیں اُس کے والد نے اطلاع کرکے بلایا تھا، وہ بھی آگئے، مبینہ قاتل کے چند دوست بھی گھر کے سامنے موجود تھے، گیٹ پھلانگ کر جب اندر اور پھر ظاہر کے کمرے تک جایا گیا تو سب سکتے میں آگئے کہ کس طرح چاقو سے نور کے جسم کو کریدا گیا تھا، اور پھر سر کو تن سے جدا کر دیا گیا تھا۔ پھر قتل کے دو گھنٹے بعد کسی نے پولیس کو بھی اطلاع کی، پولیس آئی اور ظاہر جعفر کو گرفتار کیا، پھر ملازمین اور والدین کو بھی گرفتار کر لیا۔
اب ذرا غور کیجیے کہ ہم اجتماعی طور پر کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمارے سامنے نوجوان لڑکی قتل ہو جاتی ہے، اور ہمارا اجتماعی ڈائیلاگ ہوتا ہے کہ "ہمارا کیا لینا دینا، اس کام سے"۔ اور پھر بے حسی یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہم بہانے بناتے ہیں کہ میوزک کی آواز اونچی تھی، اس لیے اہل محلہ لڑکی کی چیخوں کی آواز نہیں سُن سکے۔
اور ویسے بھی شکوہ کیسا ہمارے تومحلے میں جعلی دوائیاں بن رہی ہوتی ہیں، اُن دوائیوں سے سیکڑوں لوگ مر رہے ہوتے ہیں، ہم پھر بھی خاموش رہتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد لوگ نشہ بیچ رہے ہوتے ہیں، اُس نشے سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے، مگر ہم خاموش رہتے ہیں۔ ہماری مارکیٹوں میں جوئے خانے کھل گئے ہیں، پولیس کو ان سب اڈوں کا علم ہے، ہم سب کو ان اڈوں کے بارے میں علم ہے، مگر پھربھی سب خاموش رہتے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ جرائم میں ملوث ہوتا ہے، اور ہمیں اس بارے میں علم بھی ہوتا ہے، مگر ہم مجرمانہ طور پر خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں۔
ہماری تمام حکومتیں جانتی ہیں کہ معاشرے میں اگر تعلیم کو عام نہیں کیا تو ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے مگر اجتماعی بے حسی کا عالم دیکھیے کہ بجٹ کو 2.3فیصد کے بجائے 2.1فیصد کر دیا جاتا ہے۔ پھر ہمارے نصاب میں بے شمار مسائل ہیں، ہم بہترین نوجوان نسل نہیں بنا رہے، لیکن سب خاموش ہیں۔ حتیٰ کہ کورونا کے دنوں میں ہم نے جعلی ادویات کی بھرمار کر دی، پھر ہم نے یہیں بس نہیں کیا بلکہ ہم نے جعلی لیب بھی بنا ڈالیں جہاں سے ہزاروں روپے کے جعلی ٹیسٹ لوگوں کے ہاتھ میں تھما دیے جاتے تھے۔
پھر ہم نے ہم نے جعلی لوگوں کو ہیرو بنالیا، اور ہیرے جیسے لوگوں کو "زیرو" بنایا لیا، پھر ہم نے جس شخص پر کئی مقدمات چل رہے تھے، اُس کو پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دے کر اجتماعی بے حسی پر سرکاری مہر بھی ثبت کر دی۔ پھر اجتماعی بے حسی، ناقص میٹریل، ٹھیکیداروں کی دولت کمانے کی ہوس، ڈیزائننگ کی خرابی اور زائد المیعاد ہونے کے باعث آئے دن عمارتیں منہدم ہونے جیسے مسئلے جہاں لوگ ملبے تلے دب کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، بلڈنگ کنٹرول کے ادارے موجود ہیں، لیکن رشوت کی بہتات نے ان اداروں کو بے اثر بناکر رکھ دیا ہے، کیا یہ اجتماعی بے حسی کی عام مثالیں نہیں۔
اور اسلام آباد میں جو حالیہ بارشیں ہوئیں، وہ بھی اس لیے کہ ہم نے نالوں کے ارد گرد تجاوزات قائم کررکھی ہیں، بڑی بڑی بلڈنگز کھڑی کر رکھی ہیں، تبھی دارالحکومت میں سیلابی کیفیت ہوئی، یہ اجتماعی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر ہیلمٹ دیکھ لیں، آج بھی ہیلمٹ کے نا پہننے کی وجہ سے پورے ملک میں ہر سال 20ہزار نوجوان ہلاک ہو رہے ہیں، مگر اس کو پہنانے میں کسی کا ذاتی فائدہ نہیں اس لیے یہ عمل بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ کیا یہ اجتماعی بے حسی نہیں!
آپ یقین مانیں!کہ ہم اس قدر بے حس ہیں کہ ابھی سال کے شروع میں ہی موٹروے پر بچوں کے سامنے سسکتی عورت کے وجود کے ساتھ کھیلا گیا، پھر یہیں بس نہیں ہوا، تین ماہ کی بچیوں سے لے کر بڑی عمر تک کی عورتوں کو نہیں بخشا جاتا۔ الغرض صرف جون جولائی کے مہینے میں ایک پچاس سالہ مرد کو دس سالہ لڑکی سے زیادتی کرنے پر گرفتار کیا گیا، ایک پندرہ سالہ لڑکے نے ایک ساڑھے تین سال کی بچی کا ریپ کیا، ایک بیس سالہ شادی شدہ لڑکی کے ساتھ دو مردوں نے جنسی زیادتی کی، ایک چوبیس سالہ مرد کو ایک طالب علم کو اغوا اور یرغمال بنانے پر گرفتار کیا گیا اور ایک نو عمر بچی کی مسخ شدہ لاش کھیتوں سے برآمد ہوئی۔ کیا یہ بے حسی نہیں ہے!
اور تو اور اس سے بھی گھمبیر صورتحال یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم اتنے کم ظرف، کمینے، تنگ نظر، بے حس، گھٹیا ہو چکے ہیں کہ ہمیں کسی زندہ انسان کو سہارا دینا تو دور کی بات قبر کے لیے دوگز زمین دینا بھی گوارا نہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کامیڈی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ 70 سالہ امان اللہ لاہور میں انتقال کرگئے۔
امان اللہ خان پھیپھڑوں، گردوں اور دل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ وزیرِاعظم عمران خان سمیت اعلیٰ حکومتی اور شوبز شخصیات نے امان اللہ کے انتقال پر گہرے رنجم و غم کااظہارکیا۔ پھر جب تدفین کا وقت آیا تو مقامی قبرستان میں اُن کی تدفین کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ ان کے قبرستان میں کسی "میراثی" کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ایک وائرل وڈیو کلپ میں مقامی سوسائٹی کے عہدے دار، جن کے چہرے پر سنتِ نبویؐ سجی تھی، وہ اپنے "موقف" کا برملا اظہار کرتے پائے گئے۔ پھر ہم اپنے والدین سے کیسا سلوک کر رہے ہیں، آپ کسی کے گھر میں جھانک نہیں سکتے مگر چند ویڈیوز معاشرے کی عکاسی ضرور کرتی ہیں، بچیوں کے قتل و ریپ کیسز میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
لہٰذابے وفائی، ہراساں کرنا، نظر انداز کرنا، جسمانی تشدد، نفسیاتی تشدد، جسمانی خدوخال کا مذاق، پدر شاہی، صنفی امتیاز، بیٹے کی خواہش، بچیوں کے ساتھ ناانصافی اور ناروا سلوک، یہ تمام وہ مسائل ہیں جو ہمارے معاشرے کی بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، اسے ختم کرنے کے لیے معاشرے میں تعلیم کے ساتھ تربیت ضروری ہے۔
آخر میں تعلیم و تربیت کی کمی اور بے حسی کا ایک اور پہلو بتاتا چلوں کہ پاکستان میں چھاتی کا کینسر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے مگر بیشتر مرد عورت کو اس کے علاج کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس بیماری کو شرم کے ساتھ منسلک کردیا جاتا ہے! لہٰذاجس ملک کی حالت یہ ہو کہ چھاتی کے کینسر کو "شرم" کے ساتھ جوڑ دیا جائے، وہاں نور کو قتل ہوتے دیکھ کر اہل محلہ کا شرم کے مارے اپنے گھروں میں رہ کر اس سانحے کو دیکھتے رہنا اور پولیس کو نہ بلانے میں کون سی تعجب کی بات ہے!مجھے اس کا علم نہیں، اس لیے آپ ہی رہنمائی فرما دیں!