آج کل اولمپکس گیمز کا میلہ ٹوکیو میں سجا ہوا ہے، جہاں دنیا کے ہر ملک کے ہزاروں کھلاڑی اپنی کارکردگی کے جوہر دنیا کے سامنے دکھا کر میڈلز حاصل کررہے ہیں جب کہ پاکستان آج 29سال بعد بھی "صفر" پر کھڑا ہے۔
اس مسئلے پر بعد میں بات کرتے ہیں، لیکن اُس سے پہلے ذکر کرتے ہیں "اسپورٹس مین اسپرٹ" کی۔ اگلے روز ٹوکیو اولمپکس میں ہائی جمپ کے فائنل میں اٹلی کے گیان مارکو ٹیمبری اور قطر کے موتاز عیسیٰ بارشم کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ دونوں ایتھلیٹس نے 2.37 میٹر چھلانگ لگا کر پوائنٹس برابر کردیے تھے۔
آخر میں دونوں ایتھلیٹس کو مزید تین تین باریاں دیں گئیں لیکن پھر مقابلہ برابر رہا۔ بعد ازاں دونوں کو پھر ایک، ایک باری دی گئی جس میں اٹلی کے گیان مارکو ان فٹ ہونے کے سبب اس باری سے دستبردار ہوگئے۔ یوں قطر کے موتاز عیسیٰ بارشم سونے کے تمغے کے حقدار بن گئے۔
اس موقع پر بارشم نے منتظمین سے سوال پوچھا کہ اگر وہ بھی آخری باری سے دستبردار ہوجائیں تو گولڈ میڈل میں دونوں حصے دار بن سکتے ہیں جس پر منتظمین نے جواب ہاں میں دیا۔ منتظمین کا جواب سن کر بارشم نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آخری باری سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا جس پر اٹلی کے ٹیمبری نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور بارشم کے اس فیصلے پر اتنا اچھلے جتنا وہ مقابلے کے دوران نہیں اچھلے ہوں گے۔
اٹلی کے ایتھلیٹ کے خوشی میں آنسو بھی رواں تھے اور پھر انھوں نے اپنے حریف کو گلے بھی لگایا۔ بارشم سے جب پوچھا گیا کہ انھوں نے یقینی جیت کو "شیئر" کیوں کیا تو انھوں نے کہا کھیل ہمیں یہی سکھاتا ہے، یہ وہ انداز ہے جو دلوں کو چھو جاتا ہے جس کے بعد مذہب، رنگ اور سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔
اسپورٹس مین اسپرٹ کا ایک اور واقعہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 16 اکتوبر 1987کے دن قذافی اسٹیڈیم لاہور تماشیو ں سے کھچا کھچ بھر ا تھا، اسٹیڈیم کے باہر بھی ہزاروں لوگ موجود تھے جب کہ دنیا بھر میں کروڑوں کرکٹ شائقین ٹی وی کے سامنے بیٹھے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ دیکھ رہے تھے۔
ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 216 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا جسے پورا کرنے کے لیے آخری اوور کی آخری بال پر پاکستان کو جیتنے کے لیے دو رنز درکار تھے اور اس کا آخری کھلاڑی سلیم جعفر نان اسٹرائیکر اینڈ پر موجود تھا جب کہ اسٹرائیکر اینڈپر عبدالقادر موجود تھا۔ ویسٹ انڈیز کے لیے یہ میچ جیتنا بہت ضروری تھا، ہار کی صورت میں وہ سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوجاتا، اگر ایسا ہوتا تو کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں ویسٹ انڈیز پہلی بار سیمی فائنل سے آؤٹ ہوتا۔ میچ کا آخری اوور لیجنڈ فاسٹ باؤلر کورٹنی والش کرا رہا تھا۔
آخری بال کے لیے کورٹنی والش اپنے مخصوص انداز میں بال کرانے کے لیے بھاگا۔ کورٹنی والش نے جونہی بال کرانے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو فوراًدونوں ہاتھ نیچے کرکے کھڑا ہوگیا کیونکہ نان اسٹرائیکر اینڈ پر سلیم جعفر رن لینے کے لیے بال کرانے سے پہلے کریز چھوڑ چکا تھا۔ کورٹنی والش اسے آسانی سے رن آؤٹ کرکے یہ میچ جیت سکتا تھا لیکن کرکٹ کی روائت کے مطابق اس نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے وارننگ دیتے ہوئے کریزمیں واپس آنے کا موقعہ دیا اور پھر آخری بال کرائی جسے عبدالقادر نے ہٹ لگا کر پاکستان کو میچ جتوا دیا اور تاریخ میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل سے باہر ہوگیا۔
پھر دسمبر 2012 میں اسپین کے ایک شہر میں دوڑ کے مقابلوں کے دوران یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا، مقابلے میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا اتھلیٹ ابوالمطیع سب سے آگے تھا، اسے احساس ہوا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے چنانچہ رک گیا۔
خود فنش لائن عبور کرنے کے بجائے مطیع کو آگے کیوں بڑھایا، فرڈیننڈز کا جواب چشم کشا تھا کہا "میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کا حق مار کر فتح کو یقینی نہ بنا سکے۔" مگر تم نے کینیا کے اتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا؟ صحافی نے پھر پوچھا" وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اس کی تھی۔" صحافی نے اصرار کیا " تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے؟ " فرڈیننڈز نے جوال دیا "اس جیت کا میرٹ کیا ہوتا؟ "اس میڈل کی عزت کیا ہوتی؟ میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی"۔ اس طرح کے اور بھی واقعات ہیں جنھیں یہاں بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ جس معاشرے میں "اسپورٹس مین اسپرٹ" ہوگی، اُس معاشرے کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔