حکو مت کی جانب سے اعداد و شمار کے ساتھ ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دشمن ممالک پاکستان کے خلاف عالمی سطح اور پاکستان کے اندر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیسے بھارت، افغانستان اور اسرائیل سے پا کستان مخالف بیانیے کو فروغ دیا جاتا ہے۔
میرے لیے یہ کوئی حیرانی کا باعث ہے اور نہ کوئی پریشانی کا باعث ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دشمن کے وار سے نبٹنے کے لیے ہماری حکمت عملی درست نہیں۔ دشمن کو ہم آپس میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ کر شکست نہیں دے سکتے۔
میں فواد چوہدری کی اس بات سے بھی متفق ہوں کہ جس طرح ڈیجیٹل میڈیا ونگ نے بھارت اور افغانستان کی سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا ہے، وہ اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس ڈیٹا نے ثابت کیا ہے کہ جعلی خبروں اور پراپیگنڈے کی لڑائی کے لیے صف بندی بہت ضروری ہے۔ پاکستان کی رائے عامہ کوحقیقت سے آگاہ رہنا چاہیے۔ لیکن رائے عامہ کو ڈنڈے کے زور پر ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔ رائے عامہ کا معاملہ دماغ کے ساتھ ساتھ دل سے بھی ہوتا ہے۔ ہمیں لوگوں کے دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی جیتنے ہیں۔ لوگ دل سے ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں، دماغ سے نہیں۔ اس اصول کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے دشمن عالمی سطح پر اور پاکستان کے اندر بیانیہ بنا رہے ہیں تو ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم خاموش بیٹھے ہیں۔ دشمن کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں پاکستان کے اندر جس یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت ہے کیا وہ موجود ہے؟ سوال یہ ہے کہ دشمن کو پاکستان کے اندر سے مدد کیوں مل رہی ہے؟ کیوں ہم نے ملک کے اندر ایسا ماحول بنالیا ہے جس کا دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ماضی میں بھی سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت حکمران اشرافیہ نے ملک کے اندر ایسا ہی ماحول بنا لیا تھا کہ دشمن کو پاکستان کے اندر سے نقب لگانے کا موقع مل گیا تھا۔ تب بھی دشمن کو حکمران طبقے نے اپنی عاقبت نااندیشانہ پالیسوں کے باعث موقع دیا تھا، دشمن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ہمیں اندر سے توڑ دیا تھا۔ پاکستان کے حکمران ملک کے اندر غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے میں مصروف رہے۔
آج ہم افغانستان میں دیکھ رہے ہیں کہ ایک بڑی اورتربیت یافتہ فوج اپنے ہی ملک کے غیر تربیت یافتہ جنگجوؤں سے ہار رہی ہے۔ تین ماہ میں تین آرمی چیف بدلنے کے باجود افغان فوج ہار رہی ہے۔ اپنے ہی ملک کے لوگ اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اپنے ہی ملک کے لوگ اپنے ہی ملک کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اپنے ہی ملک کے وسائل کو تباہ کیا جا رہا ہے جب کہ دوست دشمن تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اشرف غنی اور طالبان دونوں میں ہی اپنے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں مصالحت کا جذبہ نہیں ہے۔ دونوں ہی اپنے مقاصد سے آگے نہیں دیکھ رہے۔
دنیا ان کو کہہ رہی ہے کہ آپ افغانوں نے اپنے معاملات خود حل کرنے ہیں۔ ہم آپ کی مصالحت نہیں کرا سکتے لیکن افغان قیادت اپنے اندر مصالحت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہی۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ افغانوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مقاصد کے لیے اپنی ہی ملک اور قوم کو تباہ وبرباد کیا ہے۔ ان کے آپس کے نسلی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی تعصبات کی وجہ سے ہی ماضی میں بھی بیرونی قوتوں کو افغانستان میں اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملا۔ طالبان کی پہلی حکومت میں بے شک امن تھا لیکن وہ حکومت بھی افغانستان کے اندر اور باہر سیاسی تنہائی کا شکار تھی۔
انیسویں صدی میں آمریتیں کامیا ب رہی ہیں کیونکہ رائے عامہ اورآواز کو دبانے کے ذرایع طاقتور تھے لیکن پھر بھی آمریت اور بندوق کے زور پر قائم حکومتوں کو عوامی تائید کے لیے مجبوری میں قدم اٹھانا پڑے۔ بادشاہتوں کو بھی جمہوریت کے دروازے کھولنا پڑے۔ لیکن آج کی صدی میں رائے عامہ کو دبانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ لوگوں کو اپنی آواز پہنچانے کے متبادل ذرایع حاصل ہو گئے ہیں۔ لوگ اپنا غصہ بھی گھر بیٹھے نکال سکتے ہیں۔ اس لیے رائے عامہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کی اس ضمن میں تشویش درست ہے۔
حکومت نے مرض کی تو درست نشاندہی کی ہے۔ لیکن شاید مرض کا علاج ان کے پاس نہیں ہے۔ شاید کہیں نہ کہیں مرض کی ایک وجہ یہ حکومت بھی ہے۔ موجودہ دور میں حکومت نے خود کو ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ فریق بنا لیا ہے جو ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو ملک کی سیاسی لڑائیوں میں فریق نہیں ہونا چاہیے۔
ان کے ساتھ پورے ملک کا اعتماد ہی ان کی طاقت ہوتا ہے۔ آمریت کا بھی بڑا مسئلہ یہی ہو تا ہے کہ آمر ریاستی اداروں کو اپنے اقتدار کی طاقت کے لیے استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے ریاست اندر سے کمزور ہوتی ہے۔ اسی لیے مضبوط آمریتیں بھی مضبوط ممالک کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں۔ دشمن باہر بیٹھ کر اندر سے نقب لگا لیتا ہے۔ عالمی رائے عامہ سے زیادہ ملک کے اندر بننے والی رائے عامہ زہر قاتل بن جاتی ہے۔
آج بھی پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات دشمن کو اندر سے نقب لگانے کا موقع دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس وقت پاکستان میں آمریت نہیں ہے لیکن موجودہ حکومت کا انداز حکمرانی آمرانہ ہی ہے۔ اہم قومی معاملات پر بھی باہمی مشاورت کا کلچر ختم ہو گیا ہے۔ کیا کوئی اندازہ کر سکتا ہے جس ملک کی سیاسی قیادت نے چند دن میں نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کر لیا۔ اٹھارویں ترمیم کر لی۔ وہاں اب کوئی ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک حکومت جس کے خیال میں اس کی اپوزیشن ملک دشمن ہے۔
غدار ہے اور اس اپوزیشن کو سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ایک وزیر اعظم ہے جس کے نزدیک اس کی مقبولیت کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ قائد حزب اختلاف سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ ایک حکومت جو سمجھتی ہے کہ وہ ریاستی اداروں اور اسٹبلشمنٹ کی واحد چوائس ہے۔ اس لیے وہ مضبوط ہے۔ حالانکہ اس کا واحد چوائس ہونا ملک کی کمزوری اور ریاست کی کمزوری کا باعث ہے۔ جہاں مفاہمت کی بات کرنے والے حکومت کے دشمن نمبر ون بن جائیں وہاں کون حکومت سے بات کرے گا۔
اسٹبلشمنٹ کو اس نازک صورتحال کا ادراک ہے۔ اسی لیے وہ مرض کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ لیکن علاج کے لیے بھی قدم انھیں ہی بڑھانا ہوگا۔ ملک میں اہم قومی معاملات پر قومی ا تفاق رائے کے لیے راہ ہموار کرنی ہوگی۔ مائنس کرنے کے کھیل نے ماضی میں نقصان پہنچایا ہے۔ اب بھی کھیل نقصان کی طرف ہی بڑھ رہا ہے۔
عوام کو مائنس کرنے کا حق دینا ہوگا۔ اب سنبھلنا ہوگا۔ بات پاکستان کی ہے۔ جب ریاست فریق نہیں ہوگی تو کوئی ریاست سے نہیں لڑے گا۔ ملک میں قومی یکجہتی اور قومی ہم آہنگی ہوگی۔ مل کر فیصلے کرنے سے ہی ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ سولو فلائٹ تو سپر پاور کو لے ڈوبتی ہے۔ ہم اس کے کیسے متحمل ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو بھی اپنی ملک کی خاطر اپنی پالیسی اور سوچ بدلنی ہوگی یہی پاکستان کا مفاد ہے۔ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کے بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرنا ہوگی۔