عمران خان اقتدار میں آئے تو قومی مسائل کے انبار اور اُن کی اپنی حکومتی ٹیم کی "پرفارمنس" نے انھیں خاصا پریشان کر دیا، معاشی، خارجہ، دفاع اور داخلہ وغیرہ کی ٹیمیں بنانے میں انھیں خاصا وقت لگ گیا۔ شاید تبھی حکومت کے پہلے تین سال میں اُن کی نظروں سے کئی شعبے اوجھل رہے اور وزیراعظم چونکہ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان تھے۔
اس لیے سب نے سوچا کہ اب ملک میں آؤٹ ڈور گیمز کا طوفان آجائے گا، مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا، کیوں کہ انھیں کھیلوں کے حوالے سے طویل منصوبہ بندی بنانے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ اب جب کہ 3سال بعد حالات نسبتاََ نارمل ہو چکے ہیں، تو وزیراعظم آہستہ آہستہ دیگر شعبوں کی طرف بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تبھی انھوں نے پی سی بی کا چیئرمین احسان مانی جیسے تجربہ کار ایگزیکٹو کے بعد سابق کرکٹر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کمنٹیٹر رمیز راجہ کو لگانے کا فیصلہ کیا ہے، وہ 13ستمبر کو موجودہ چیئرمین احسان مانی کا دور مکمل ہونے کے بعد باقاعدہ عہدہ سنبھال لیں گے۔ لیکن اُن کے آنے سے پہلے ہی کرکٹ بورڈ اور پاکستانی کرکٹ میں خاصی ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ شاید اچھا شگن بھی ہے کیوں کہ کبھی کبھی جمود توڑنے کے لیے ہلچل پیدا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
خیر اگر رمیز راجہ کے بارے میں بات کریں تو وہ کرکٹ بورڈ کے 35ویں چیئرمین ہوں گے، وہ یقینا بورڈ کے انتظامی ڈھانچے سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جنرل توقیر ضیا دور کے ابتدائی دنوں میں ایڈوائزری کونسل کا حصہ رہے اور بعدازاں اپریل 2003میں اس وقت پی سی بی کے چیف ایگزیکیٹو افسر بنا دیے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ صرف 15ماہ تک ہی اس عہدے پر رہے تھے۔
پاکستان کرکٹ کے جن عہد ساز لمحوں کو قطعی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان میں سے ایک لمحہ 25 مارچ 1992کی ایک خوشگوار شام کو دیکھا گیا تھا جب رمیز راجہ نے مڈ آف پر کیچ پکڑ کر اپنے کپتان کو ان کی آخری بین الاقوامی وکٹ دلائی اور میلبرن کرکٹ گراؤنڈ سے ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ ان کی فاتحانہ رخصتی کو ممکن بنایا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ موصوف میرے گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے کالج فیلو اور ہم عصر دوستوں میں سے ایک تھے۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے ہم نے اکٹھے گریجوایشن کی اور پھر بعد میں پنجاب یونیورسٹی میں بھی اکٹھے تعلیم حاصل کرتے رہے، لیکن پنجاب یونیورسٹی میں میں ایم اے جنرلزم کا طالب علم تھا جب کہ رمیز بزنس کا اسٹوڈنٹ تھا، فرق اتنا تھا کہ وہ کرکٹ کا پلیئر تھا اور ہمیں ہاکی کے ساتھ شغل لگانے کا موقع میسر آجاتا تھا، اس لیے ہم اکثر گراؤنڈز میں اکٹھے ہوتے تھے۔
1984 میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو رمیز پہلی مرتبہ ٹیم میں سلیکٹ ہوئے، تو ہم سب دوستوں کی نذر و نیاز اور دعائیں رمیز کے لیے ہوا کرتی تھیں، وہ جب میدان میں اُترتا تو ایسے لگتا جیسے ہم خود میدان میں اُتر گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ رمیز پہلے میچ کی دونوں اننگز میں ایک رنز سے زیادہ اسکور نہ بنا سکے تو ہر طرف سے اُس پر تنقید شروع ہوگئی۔
لیکن ہم اُن کے دفاع کے لیے اُس وقت "سوشل میڈیا"کا کام سر انجام دیتے تھے، پھر آہستہ آہستہ اُن کی کارکردگی بہتر ہوئی اور انھوں نے 1987، 1992اور 1996کا ورلڈ کپ کھیلا۔ ٹیم میں اُن کی اچھی خاصی عزت بھی تھی، کیوں کہ وہ سب سے پڑھا لکھا کھلاڑی ہونے کے ساتھ پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
خیر1997میں رمیز کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوگیا اور کمنٹری کی دنیا میں قدم رکھا اور وہ پاکستان کی پہچان بن گیا، ہر فورم پر اُن کے تبصروں کو تسلیم کیا جاتا، اور ہر کوئی اُن کی باتوں پر کان دھرتا۔ اس لیے مجھ جیسے کرکٹ شائق کی خواہش تھی کہ ہم اتنے بڑے ٹیلنٹ اور کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو ضایع کر رہے ہیں، پھر میں سوچتا کہ کیوں کسی کی نظر رمیز راجہ پر نہیں جاتی کہ وہ پاکستان کی کرکٹ میں جدت پیدا کرے اور کھویا ہوا مقام و مرتبہ دوبارہ بحال کروائے۔ پھر یقینا وہ دن بھی آگیااور ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اب کرکٹ کی دنیا میں میرٹ پر فیصلے ہوں گے۔ لیکن ہمیں افسوس ہوا، ایسا افسوس ہوا کہ بقول شاعر
آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
یعنی رمیز راجہ کے آتے ہی مصباح الحق اور وقار یونس یعنی کوچنگ ٹیم نے ہی استعفیٰ دے دیا، یا شاید اُن سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ حالانکہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ آنے میں محض ایک ماہ رہ گیا ہے، اور پھر کھلاڑیوں کو نئی کوچنگ ٹیم کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے واللہ علم۔ اور پھر اُن کے آنے کے بعد ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا جو اعلان کیا گیا اُس پر بھی خاصا شور شرابہ ہونے لگا، سب سے پہلے اُس کے بارے میں سن لیں کہ ٹیم میں بابر اعظم کپتان، شاداب خان نائب کپتان کے علاوہ دیگر کھلاڑیوں میں آصف علی، اعظم خان، حارث رؤف، حسن علی، عماد وسیم، خوشدل شاہ، محمد حفیظ، محمد حسنین، محمد نواز، محمد رضوان، محمد وسیم جونیئر، شاہین شاہ آفریدی اور صہیب مقصود شامل ہیں۔ پھر جیسے ہی ٹیم کی اناؤنسمنٹ ہوئی نئے تنازعات نے جنم لینا شروع کردیا، جس کے لیے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کو میدان میں آنا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ "ٹیم سلیکشن کے سلسلے میں جو سمت اختیار کی گئی ہے ہمارے کپتان بابر اعظم مکمل طور پر اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔"
اس بیان کو دینے کی ضرورت اُس وقت پڑی جب کپتان بابر اعظم کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ٹیم سلیکشن میں اُن کے سخت تحفظات ہیں، اور راقم کی مخبری کے مطابق اسکواڈ میں شرجیل خان، فخرزمان، فہیم اشرف اور عثمان قادر کے نام دیے گئے تھے، جب کہ صہیب مقصود اور اعظم خان کے ٹیم میں شمولیت حیرانی کا باعث بنی۔ اب ہم کرکٹ کے "ماہرین" تو نہیں مگر اتنی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ کس کھلاڑی کو میرٹ پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے اور کس کھلاڑی کو "پرچی" پریعنی سفارش پر۔ اب ٹیم میں شعیب ملک جیسے ہارڈ ہٹر اور تجربہ کار کھلاڑی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ شعیب دباؤ میں کھیلنے والا بڑا کھلاڑی ہے، وہ فائٹر بھی ہے اور اُس جیسی پریشر میں فائٹ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔
اس لیے اب ہمارا خیال تھا کہ پی سی بی کو پسند نا پسند کے چکر سے رمیز راجہ ہی نکالے گا، مگر ٹیم کی جو پہلی اناؤنسمنٹ ہوئی ہے، اُس نے سب کو مایوس کر دیا ہے۔ بادی النظر میں یہ رمیز راجہ کے شایان شان نہیں ہے، کیوں کہ جس طرح عمران خان قوم کی اُمید ہیں، یعنی اُن کے بعد ہمیں ملک سنبھالنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا، اسی طرح رمیز راجہ کے بعد بھی ہمیں پاکستان میں کرکٹ کا کوئی خیر خواہ نظر نہیں آرہا اور ہم نہیں چاہتے کہ خاکم بدہن کرکٹ کا حال بھی باقی کھیلوں خصوصاََ ہاکی جیسا ہوجائے۔ اس لیے راجہ صاحب آپ سے قوم کو بہت سی اُمیدیں ہیں، آپ قومی ٹیم میں اُن کھلاڑیوں کو شامل کریں جو میچ ونر ہوں، جو پریشر میں ٹیم کو بحران سے نکال سکیں۔ ورنہ آپ تنازعات میں ہی گھرے رہیں گے!!!