Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shakhsiyat Parasti

Shakhsiyat Parasti

آج 8اکتوبر کو چیئرمین نیب کی مدت ختم ہوجاتی اور نئے نیب چیئرمین اپنے عہدے کا حلف اُٹھاتے اگر حکومت صدارتی آرڈینس نہ لے کر آتی، یہ صدارتی آرڈیننس جسٹس (ر)جاوید اقبال کو نئی تقرری تک چیئرمین نیب برقرار رکھنے کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔

نئے صدارتی آرڈیننس کے تحت موجودہ چیئرمین جاوید اقبال کو مزید چار سال کے لیے چیئرمین بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے، صدر پاکستان نئے چیئرمین نیب کی تقرری وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے اور یہ کہ موجودہ چیئرمین کی ہی مزید چار سال کے لیے تقرری کی جا سکے گی۔

آرڈیننس کے تحت جب تک نئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا تو موجودہ چیئرمین، جس کی مدت پوری ہو چکی ہے، اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کے پاس تمام اختیارات ہوں گے۔ جب کہ نئے نیب آرڈیننس میں فیصلہ سازی کے اہم ادارے نیب کی گرفت سے نکال دیے گئے ہیں۔

مزید یہ کہ نیب قانون کا اطلاق وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکسیشن کے معاملات پر نہیں ہوگا، وفاقی اور صوبائی کابینہ، کمیٹیوں اور ذیلی کمیٹیوں کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوں گے۔ جب کہ مشترکہ مفادات کونسل، این ای سی، این ایف سی، ایکنک، سی ڈی ڈبلیو پی، پی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلے بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ اور پاکستان بھر کی احتساب عدالتوں میں جدید ٹیکنالوجی نصب کی جائے گی تا کہ شہادتوں کو آڈیو اور وڈیو کی صورت بھی ریکارڈ کیا جا سکے وغیرہ۔

اس آرڈیننس کے آنے کے بعد ملک بھر میں احتساب کے عمل کو لے کر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے، ایک حلقہ یہ کہہ رہا ہے کہ موجودہ نیب آرڈیننس کے مطابق ایک بار پھر سب کو این آر او دے دیا گیا ہے، جب کہ دوسرا حلقہ یہ کہہ رہا ہے کہ نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے یہ سب ڈراما رچایا گیا ہے، نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ نیب صرف ایک شخص کی مرہون منت کام کررہا ہے جب کہ پورے ملک میں اُن کے لیول کا کوئی بھی شخص موجود نہیں ہے۔

حالانکہ دنیا میں جتنے بھی ملکوں نے ترقی کی، کسی ایک نے بھی شخصیت پرستی کی پیروی نہیں کی۔ دوسری جنگ عظیم میں وزیراعظم سر ونسٹن چرچل برطانوی عوام کا ہیرو تھا۔ اس نے حیران کن جرات، دلیری اور تدبر سے انگلش قوم کی قیادت کی اور ہٹلر کے طوفان سے بچایا۔ اس جنگ میں چرچل کی جگہ کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو شائد جنگ کا نقشہ مختلف ہوتا۔ جنگ کے فوری بعد برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے۔ چرچل کا خیال تھا کہ اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے پیش نظر جیت یقینی ہے۔ اسے اپ سیٹ شکست ہوئی اور لیبر پارٹی کے ایٹلی وزیراعظم بن گئے۔

چرچل نے یہ کہہ کر اقتدار منتقل کیا کہ آج ملکی ادارے مضبوط ہیں تو برطانیہ ترقی کرتا رہے گا۔ مطلب وہاں کے عوام نے بھی شخصیت پرستی کو فروغ دینے کے بجائے "آواز کا ووٹ" دیا اور ایٹلی کو وزیراعظم بنا دیا۔

لیکن اس کے برعکس اگر چرچل اقتدار کے ساتھ چمٹے رہتے اور اُن کی اولاد اقتدار سنبھالتی تو شاید برطانیہ آج ایک تیسری دنیا کا ملک ہوتا۔ پھر امریکی صدر اوباما ریٹائرڈ ہوئے تو وہ واپس نہیں آئے، اور نہ ہی اس نے اپنی بیٹییوں کو سیاست میں زبردستی دھکیل۔ اسی طرح صدر کلنٹن جوانی میں ہی ریٹائرڈ ہوگئے، مگر دوبارہ سیاست میں نہ آئے جب کہ ان کی بیگم ہیلری کلنٹن سیاست میں آئیں لیکن ایک سسٹم سے گزر کر سیاست میں آئیں اور صدارتی الیکشن لڑا۔ پھر جرمنی کی چانسلر کو دیکھ لیں، انھوں نے جتنا بھیSurve کیا خود ہی کیا، اپنے بچوں کو سیاست میں لانے سے گریز کیا یا اپنے بچوں کو سیاست میں لانے کے لیے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ جسٹس جاوید اقبال نے اچھے کام نہیں کیے، بلکہ میں تو خود کہتا رہا ہوں کہ وہ باقی لوگوں سے بہتر کام کر رہے ہیں۔ جسٹس ر جاوید اقبال کے اکتوبر 2017 سے تادم تحریر دور میں نیب بد عنوان عناصر سے 533 ارب بلواسطہ و بلاواسطہ برآمد کرواچکا ہے جب کہ نیب کے قیام سے 2016 تک کے 17 سالہ دور میں نیب کل 287 ارب روپے ریکور کرا پایا تھا۔

ہمیں اس حکومت سے یہ اُمید تھی، کہ یہ سسٹم کو آکر بہتر کرے گی، لیکن یہ بھی اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصیات پرستی کے پیچھے چل پڑی ہے۔ پھر وزیر اعظم صاحب کے خود کے الفاظ ہیں کہ ہم اقتدار میں آکر اداروں کو مضبوط کریں گے، مگر آپ ہر ادارے کا حال دیکھ لیں، کہیں حکومتی رٹ نظر نہیں آرہی، پھر وزیر اعظم صاحب نے خود کہا تھا کہ چیئرمین کرکٹ بورڈ وزیر اعظم کیوں منتخب کرتا ہے؟ لیکن رمیز راجہ کو وہ خود لے کر آئے ہیں، یعنی یہاں بھی سسٹم کو تبدیل نہیں کیا۔ پھر آپ نے 17سال سے تعینات چیئرمین اولمپک ایسوسی ایشن کو تبدیل نہیں کیا۔ یعنی معذرت کے ساتھ آپ بھی طاقت کا مزہ لینا چاہتے ہیں۔

ہماری تمام سیاسی جماعتیں موروثیت کے گرد گھوم رہی ہیں، پی پی پی کو دیکھ لیں، بلاول کو اعتزاز، قمر الزماں کائرہ، نیئر بخاری، فاروق ایچ نائیک جھک کر سلام کرتے ہیں، جب کہ ن لیگ میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کو اسی شخصیت پرستی کی وجہ سے احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف، خواجہ آصف جیسے سینئر سیاستدان جھک کر سلام کرتے ہیں۔

اے این پی کا بھی یہی حال ہے، یعنی سلطنت عثمانیہ یا سلطنت مغلیہ اور ہماری حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور اداروں میں کیا فرق ہے؟ الغرض اس حکومت اور پچھلی حکومتوں میں فرق کیا رہ جاتا ہے، وہ بھی ایسے ہی کرتے تھے، جب کہ یہ بھی اُسی ڈگر پر چل پڑے ہیں اور مجھ جیسے کالم نگاروں کا حال تو یقین مانیں نوابزادہ نصراللہ جیسا ہو چکا ہے کہ جن چیزوں پر ہم اس پارٹی کو سپورٹ کرتے تھے، جب یہ برسراقتدار آئی تو یہ بھی انھی روایتی سیاسی جماعتوں جیسی ہوگئی۔

اس کے قول و فعل میں بھی تضاد آگیا، یعنی میرے خیال میں پی ٹی آئی آہستہ آہستہ پی پی پی اور پی ایم ایل این بنتی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں سپریم کورٹ جیسے ادارے سے سبق لینا چاہیے جہاں چیف جسٹس سینارٹی کی بنیاد پر بنتے ہیں اور وہاں کبھی کوئی اس معاملے میں خرابی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ اگر یہی سسٹم باقی جگہ پر ہو جائے، تو آہستہ آہستہ ملک شخصیات کے پنجے سے نکل جائے گا اور ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا۔