برطانیہ کے شہر ویمبلے کے تاریخی گراؤنڈ پر اتوار کو فٹ بال کا یوروکپ فائنل کھیلا گیا، یہ ٹورنامنٹ کورونا کی وجہ سے ایک سال تاخیر کا شکار ہوا۔
فائنل انگلینڈ اور اٹلی جیسی روایتی حریف ٹیموں کے درمیان تھا اور انگلینڈ کے پاس 55سال بعد فاتح بننے کا چانس تھا، اس لیے مجھے بھی میچ کا شدت سے انتظار تھا، میچ شروع ہوا، ڈھائی تین گھنٹے کے سنسنسی خیز میچ نے واقعتاً چینل تبدیل نہیں کرنے دیا۔
میچ دونوں ہاف سمیت اضافی وقت میں بھی برابر رہا، جس کے بعد فیصلہ پینلٹی ککس پر ہوا۔ اٹلی نے انگلینڈ کو پینلٹی شوٹ آؤٹ پر تین کے مقابلے میں دو گول سے ہرا کر یورپی فٹبال چیمپیئن شپ جیت لی۔ انگلینڈ کے تین فٹبالر پینلٹی ککس پر گول کرنے میں ناکام رہے۔ ان کھلاڑیوں میں مارکس ریشفورڈ، جیڈون سانچو اور بوکایو ساکا شامل تھے اور تینوں سیاہ فام ہیں۔
لہٰذا کھیل کو کھیل سمجھنے کے بجائے "جدید دنیا" میں ان سیاہ فام کھلاڑیوں کے خلاف ایسا طوفان بدتمیزی شروع ہوا کہ ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ان فٹبالرز کے خلاف ایسے ایسے جملے کہے گئے جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں۔
خیر میچ تو ختم ہوگیا، مگر یہ میچ ذہن میں کئی سوال چھوڑ گیا کہ تماشائیوں کی جانب سے اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کی جانب سے جس طرح کا سیاہ فام افراد کا مذاق بنایا گیا، کیا مہذب دنیا میں یہ سب کچھ جائز ہے؟ ترقی یافتہ اقوام کے دلوں سے تاحال سیاہ فاموں کے خلاف نفرت ختم نہیں ہوسکی۔ آخر کیوں مغربی اقوام نسل پرستی کا خاتمہ نہیں کر سکیں۔
ترقی یافتہ دنیا آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں ہزار سال پہلے کھڑی تھی۔ مثلاََ 1940 میں ڈاکٹر کینتھ نے بچوں پر ایک تجربہ کیا جس میں سیاہ فام بچوں کو سیاہ اور سفید گڑیاؤں میں سے انتخاب کرنا تھا۔ زیادہ بچوں نے سفید گڑیا کو پسند کیا۔ پھر 75سال بعد 2015 میں یہی تجربہ دونوں نسل کے بچوں پر دہرایا گیا اور نتائج وہی رہے۔ گویا 75 برس میں لا شعوری نسل پرستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
کھیلوں میں تو یہ بات عام سی ہوگئی ہے، کہ معروف ٹینس اسٹار سیرینا ولیم پرکھیل کے دوران تماشائیوں کی جانب سے جب نسلی جملے بازی جاری تھی تو انھوں نے غصے سے ریفری کو چور کہہ دیا جس پر انھیں باقاعدہ تحریری سرزنش کا سامنا کرنا پڑا جب کہ سفید فام جان مکینرو جو مونہہ پھٹ مشہور تھے، کھیل کے دوران اس سے بڑی بڑی بدتمیزیاں کر جاتے تھے مگر ان کو کبھی کچھ نہ کہا گیا۔ اس بات کا اعتراف خود مکینرو نے بھی میڈیا کے سامنے کیا۔
ہر "ڈکشنری" نے اپنے اپنے انداز میں نسل پرستی کی تعریف کر رکھی ہے۔ جیسے نسل پرستی، ایک نظریہ ہے جس میں سمجھا جاتا ہے کہ کوئی انسانی نسل جینیاتی یا موروثی طور پر ممتاز یا کمتر ہے۔ نسل پرستی کسی ایک انسانی نسل کی کسی دوسری نسل یا انسانی گروہ پر فوقیت یا احساس برتری کو کہا جاتا ہے۔ نسل پرستی نسلی امتیار کو پیدا کرتی ہے۔
نسل پرستی چند افراد کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر کسی سماج یا ملک میں بھی ہو سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر نسل پرستی ہو تو کسی ایک نسلی گروہ یا آبادی کا دوسری نسل انسانی کے گروہ پر نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے۔ ماضی میں اس کی مثال امریکا اور جنوبی افریقہ ہیں۔ وہاں سیاہ فاموں کو کم تر سمجھا جاتا تھا۔
نسل پرستی اور گروہی امتیاز معاشرتی مسائل ہیں اور ان کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ انسان جینیاتی لحاظ سے مختلف نسلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مثلاً سیاہ فام اور منگول نسل۔ ان کی ظاہری شکل و صورت اور جسمانی ساخت میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر سیاہ فاموں کے بال گھنگریالے جب کہ منگولوں کے سیدھے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں اسی ظاہری فرق کو ہی امتیاز اور نفرت کی بنیاد بنا لیا جاتا تھا۔ لیکن اس امتیاز سے مفادات بھی وابستہ رہے۔
امریکا میں جب سیاہ فام غلاموں کو افریقہ سے پکڑ کر لایا جاتا تو ان سے کم و بیش جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا۔ کھیتوں میں ان سے بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ ایسے سلوک کے جواز کے لیے کسی "نظریے" کی ضرورت تھی اور یہ "نظریہ" نسل پرستی سے اخذ ہوتا تھا۔ سفید فام یہ سمجھتے تھے کہ وہ اعلیٰ اور افضل ہیں جب کہ سیاہ فام پوری طرح انسان نہیں، اس لیے انھیں آقا بننے کا پورا حق حاصل ہے۔ بس یہی تعصب آج بھی پبلک مقامات پر دیکھنے کو ملتا ہے۔
بہرکیف اگر ہم اسی تناظر میں اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم نفرت اور تعصبات کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں۔ امریکا و یورپ میں تو انسان صرف گورے اور کالے میں تقسیم ہیں جب کہ ہمارے یہاں یہ تقسیم کثیرالجہتی ہے۔ کہیں امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم ہے۔ کہیں مذہب اور فرقوں کی تقسیم، کہیں ذات، برادریوں کی اونچ نیچ، یہ سب ہمارے ہی معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
امیر غریب کی تقسیم تو یقینا ًمغرب میں بھی پائی جاتی ہے لیکن فلاحی ریاستیں اپنے غریب کو لاوارث نہیں چھوڑتیں۔ بیماری کی صورت میں غریب کو بھی ویسا ہی علاج اور دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں جیسی امیر کو۔ ذات برادری کی بنیاد پر تعصب بھی ہمارا ہی طرہء امتیاز ہے کہ راجپوت، جٹ اور گجر ہونا توپیدائشی عزت و وقار کا حقدارجب کہ دیگر برادریاں، خصوصاً ہاتھ سے کام کرنے والی برادریاں، کمتر، بے وقار اور کمی کمین!۔ تعصب کا یہ کھیل برادریوں تک ہی محدود نہیں، ہماری اقلیتیں بھی مستقل ہماری نفرت کا شکار چلی آ تی ہیں۔
کیا یہ تعصب کی بدترین مثال نہیں ہے؟ کیا ہمارا قانون اقلیتوں کو اس حوالے سے کوئی تحفظ فراہم کرتا ہے؟ کیا ہمارے پاس اپنے اس غیر منصفانہ رویے اور دہرے معیارکا کوئی منطقی اور اخلاقی جواز ہے؟ کیا ہم اپنے آپ کو ایک ز ندہ قوم کہلانے میں حق بجانب ہیں؟ نہیں ناں! تو ہم بھی جدید دنیا کے نسلی تعصب میں کسی سے پیچھے نہیں!