پہاڑ، برف پوش چوٹیاں، ٹھاٹھیں مارتے دریا، برفیلی وادیاں، خوبصورت و سبز جھیلیں، دلکش نظارے، یہ سب کچھ سوئٹزر لینڈ میں ہے، یہی کچھ پاکستان کے پاس بھی ہے، بلکہ پاکستان کے پاس تو ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو سوئٹزر لینڈ کے پاس نہیں ہیں مثلاً وسیع ساحل سمندرہے، گوادر ڈیپ سی پورٹ ہے، صحرا ہے، دنیا کا دوسرا بلند ترین پلیٹو دیو سائی ہے، تاریخی و مذہبی مقامات ہیں، موہنجو دڑو ہے، تاریخی قلعے ہیں، میلے ٹھیلے ہیں، تہوار ہیں، ہر علاقے کا الگ کلچر ہے۔ ان سب کے باوجود پاکستان سے 20گنا چھوٹے ملک سوئٹزر لینڈ میں ہر سال ایک کروڑ جب کہ یہاں ہر سال 10سے 15لاکھ سیاح آتے ہیں۔
اگر اس کی وجوہات تلاش کرنے میں آئیں تو اس کے لیے شاید ایک ضخیم کتاب بھی کم پڑ جائے مگر مختصر یہ کہ دونوں ملکوں میں فرق صرف سسٹم کا ہے، دنیا یورپ کے اس چھوٹے سے ملک میں آنکھیں بند کر کے اس لیے چلی جاتی ہے کہ وہاں انھیں ہر قسم کا تحفظ حاصل ہے جب کہ یہاں سب کچھ ہونے کے باوجود ہماری "Presentation" کے حوالے سے دنیا ہمارا مذاق بناتی ہے یعنی پاکستان کے پاس یہ نعمتیں بالکل ایسے ہی ہیں "جیسے گدھے کے گلے میں لعل" جس کی قدر کمہار کو نہیں ہے!
یقین نہیں آتا تو کبھی کسی بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان یاخود بیرون ملک میں کسی سے بات کر کے دیکھ لیں وہ پاکستان کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کرے گا کہ آپ کو یہاں رہتے ہوئے شاید ان چیزوں کا اندازہ بھی نہ ہو۔ مثلاًابھی پچھلے دنوں راقم امریکا میں تھا وہاں چونکہ یہ سال الیکشن کا سال ہے اس لیے پارٹی آفسز سے لے کر پینٹا گون تک ہر طرف گہما گہمی نظر آرہی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینڈر برنی مضبوط اُمیدوار کے طور پر سامنے آرہے ہیں جو شاید ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد متوقع امریکی صدر بھی ہوں۔ کیوں کہ وہاں برنی کو "تبدیلی "کی علامت سمجھا جا رہا ہے بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان میں عمران خان کو تبدیلی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
خیر وہاں چونکہ آپ کے پاس وقت بہت زیادہ ہوتا ہے، اور دوستوں سے ملنے ملانے کے سوا آپ کے پاس اور کوئی کام بھی نہیں ہوتا، اس لیے میں اکثر الیکشن مہم میں "متحرک" دوستوں کے ساتھ چلا جاتا۔ کئی جگہوں پر" پاکستان " موضوع بحث بن جاتا، تو گفتگو کے حالات یکسر بدل جاتے، مجھے دفاعی حکمت عملی اپنا کر یہ بتانا پڑتا کہ
we are Disciplined، we are peacefullوغیرہ وغیرہ مگر جن چیزوں کی وہ نشاندہی کرتے میرے پاس کیا، اُس کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہ ہو۔ مثلاً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو کسی رول آف لاء کی رینکنگ میں ہی نہیں آتا، یہاں کا قانون محض غریبوں کے لیے ہے۔
یہاں ایک اسرائیلی یہودی سے بھی ملاقات ہوئی، اُس نے ہاتھ ملایا تو میں سکتے میں آگیا کہ کہیں مجھ پر غداری کا فتویٰ نہ لگ جائے، ہیلو ہائے ہوئی، بات آگے بڑھی تو اُس نے پوچھا کہ آپ کا خطے میں سب سے بڑا دشمن کون سا ملک ہے؟ میں نے جواب دیا، "انڈیا"۔ اس نے کہا، جب آپ نے اپنے سب سے بڑے ملک انڈیا کو تسلیم کیا ہو ا ہے، اس کے برعکس اسرائیل کے ساتھ براہ راست آپ کا کوئی مسئلہ بھی نہیں، ہمارا آپکا فاصلہ بھی ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے، پھر بھی آپ نے ہمیں تسلیم کرنے سے انکار کیوں کر رکھا ہے۔
میں نے اُسے کہا کہ آپ نے فلسطینیوں پر ظلم ڈھائے ہیں۔ اُس نے کہا "گڈ" لیکن دنیا کے 56اسلامی ممالک میں سے کم و بیش 40سے زائد ملکوں نے ہمیں تسلیم کیا ہوا ہے، کیا انھیں مسلمانوں کا درد نہیں؟ اس نے کہا کہ جن ممالک کے ساتھ جنگیں ہوئی ہیں وہ بھی ہمیں قبول کر کے بیٹھے ہیں مگر آپ لوگ نہیں کرتے، ایسا کیوں ہے؟ خیر جذباتی گفتگو کا فائدہ نہیں ہوتا، اس لیے میں نے زیادہ بحث نہیں کی۔
پھر ایک دن بڑا خوشگوار موسم تھا، ہلکی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، ایک ریسٹورینٹ میں لنچ کے لیے چند دوست بیٹھے تھے، ایک صاحب فرمانے لگے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دباؤ کے تحت کچھ بھی تبدیل کر ا سکتے ہو، دھرنے سے یہاں پلان تبدیل ہو جاتے ہیں، پریشر گروپس کی یہاں خوب ماردھاڑ رہتی ہے، دس بندے اکٹھے ہو کر پورا ملک بھی بند کردیں گے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہاں ڈاکٹرز بھی ہڑتال کرتے ہیں، جن کی وجہ سے اموات بھی ہوتی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پھر یہاں ہمیں اس بات پر بھی حیرت اور شرمندگی نہیں ہوتی کہ حکومت چیخ چیخ کر کہے گی کہ ہیلمٹ پہنو مگر ہم اُس میں سے بھی سیاست کا ہنر تلاش کر لیتے ہیں۔
پھر پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ادویات جعلی اور دودھ، آٹا اور عام کھانے پینے کی اشیاء ملاوٹ شد ہ ملتی ہیں۔ پھر ایک ہی ملک میں تھرپارکر بھی ہے اور اسلام آباد بھی۔ آپ امریکا میں ایسی جگہ گھر بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے جہاں حکومت نے سہولیات نہ دی ہوں۔ اور پھر ایک اور اہم بات یہ کہ یہاں دوسروں کے کاموں میں ٹانگیں اڑانے کو بھی خاصا افضل سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذایہ تمام باتیں ایک طرف رکھ کر اگر ہم محض اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں تو ملک خود بخود ٹھیک ہو جائے گا کیوں کہ ایک مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ اگر ملک کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے کریں!