14اگست کے فوری بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کا لاہور میں مجسمہ توڑ دیا گیا، مجسمہ توڑنے والا کون تھا کون نہیں! اس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں لیکن اُس سے پہلے رنجیت سنگھ کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سکھ لیڈر کون تھے؟
سولہویں اور سترویں صدی میں پورے پنجاب(پاک و بھارت) میں سکھوں کی بارہ مثلیں (ایک لحاظ سے خود مختار ریاستیں) تھیں اور سب کی سب ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں۔
ان بارہ مثلوں میں سے ایک مثل گوجرانوالہ میں تھی۔ اس سکرچکیہ مثل کے سردار مہان سنگھ کے ہاں 1780میں مہاراجہ رنجیت سنگھ پیدا ہوا۔ 1792میں سردار مہان سنگھ فوت ہوا، یوں رنجیت سنگھ بارہ سال کی عمر میں سکرچکیہ مثل کا سردار بن گیا۔
سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنہیا مثل میں ہوئی اور ان دو مثلوں کے اتحاد سے رنجیت سنگھ کی طاقت اور بھی بڑھ گئی۔ رنجیت سنگھ کے چرچے دور دور تک ہونے لگے کیونکہ وہ بہادر جنگجو اورمنصوبہ ساز تھا۔ اس کی عسکری طاقت بڑھی تو اس نے مزید علاقوں پر حاکمیت قائم کرنے کی حکمت عملی تیار کی۔
پھر وہ ہریانہ، پورے پنجاب، خیبرپختونخوا اور کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ برصغیر کی تاریخ میں پہلی سکھ سلطنت کا بانی بنا۔ تقریباً چالیس سالہ دورِ حکومت میں یہ سلطنت شمال مغرب میں کشمیر سے خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود سے مل چکی تھیں۔ وہ اپنے عہد کا ذہین، معاملہ فہم اور اعلیٰ عسکری حکمت کار حکمران تھا۔
اس نے انتہائی عقل مندی سے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ پنجاب اور دیگر علاقوں کے مغل سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں قائم ہونی والی سکھ مثلوں، مغل سلطنت کے وارلارڈز اور ڈاکو، لٹیروں کے ظلم و ستم کا شکار شہری اور دیہی عوام کو نجات دلا کر امن وسکون فراہم کیا تھا۔ رنجیت سنگھ نے چالیس سال تک بڑی کامیابی سے حکمرانی کی۔ ہم اسے بے شک اپنا ہیرو نہ مانیں لیکن تاریخ تو تاریخ ہوتی ہے، اس سے چھیڑ چھاڑ کرنا کم ظرفی تو ہے ہی لیکن ایسا کرنا علم دشمنی کہلائی گی۔ تاریخ سے نفرت نہیں کی جاتی بلکہ اس سے سبق سیکھا جاتاہے۔ کوئی قوم سبق تب ہی سیکھ سکتی ہے جب اسے تاریخ کا علم ہوگا۔ اس لیے تاریخی آثار کو تباہ کرنا اورتاریخ کو مسخ کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی۔
لاہور میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کو تیسری بار نشانہ بنایا گیا۔ ان "روح پرور" مناظر کی باقاعدہ ویڈیو بنائی گئی جسے پاکستانیوں سمیت دنیا بھر نے دیکھا اور خصوصاََ سکھوں نے بھی اسے بار بار دیکھا۔ یہ شاید ہمارے نصاب کی خامی یا کمزوری ہے کہ یہ نصاب تاریخ کے کرداروں کے بارے میں طالب علموں کو شعور اور آگہی نہیں سکھاتا۔ پاکستان میں طلبہ کو گنگارام، میو اسپتال، گلاب دیوی اسپتال، لیڈی ولنگٹن اسپتال اور لیڈی ریڈنگ اسپتال کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔ یہاں کے تاریخی کالجز جو شاید ہندؤوں، سکھوں اور انگریزوں نے بنائے ہیں۔
ان میں ہزاروں طلباء ڈگریاں کے کر نکلتے ہیں، لیکن وہ ان شخصیات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اگر آج ایک طالب علم نے رنجیت سنگھ کے مجسمے پر حملہ کر دیا ہے تو کل کو کچھ لوگ اُٹھیں گے اور وہ موہنجو دڑو پر حملہ کردیں گے کہ اس 6ہزار سال پرانی تہذیب کے لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے، پھر کچھ گندھارا تہذیب کے تاریخی آثار پرحملہ آور ہوں گے، کچھ ہڑپہ تہذیب، کچھ مہرگڑھ کے آثار پر حملہ آور ہوں گے، عجائب گھروں پر حملہ کر دیں گے، جہاں پرانی مورتیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ اس لیے اگر ان "حملوں " کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو پھر ہمارے ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے سکھوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے ہی خوشگوار رہے ہیں، ان تعلقات کوخراب کرنے کے لیے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ بھارت کو علم ہے کہ کینیڈا میں دوسری بڑی آبادی سکھوں کی ہے، برطانیہ میں بھی سکھوں کا بڑا اثرو رسوخ ہے اور وہ پاکستان کی ترقی میں بھی اچھا خاصا کردار بھی ادا کر رہے ہیں، بھارت سکھوں کی خالصتان تحریک سے خوفزدہ ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے تعلقات سکھوں کے ساتھ اچھے رہیں۔
1990 کی ابتدا میں بھارت نے سکھ مزاحمت کو کچلنے کے لیے بے رحمانہ کارروائیوں کا آغاز کیا جس میں سکھ رہنماؤں کو قتل کیا گیا، سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل پر چڑھائی کی گئی۔ بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی کو اس کے دو سکھ محافظوں نے قتل کرکے اپنی طرف سے امرتسر میں گولڈن ٹیمپل میں قتل و غارت اور بربریت کا بدلہ چکا دیا تھا۔ الغرض اس واقعے کے بعد "خالصتان" تحریک کو وہ عروج مل سکا جو اس سے پہلے اُسے حاصل تھا۔
پاکستان میں سکھ ایک چھوٹی سی اقلیت ہے۔ تقسیم پنجاب کی ہولناک یادوں کے باوجود سکھوں اور پاکستانی مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان میں ان کے مقدس مقامات پر آسان رسائی دی گئی ہے۔ کرتار پور راہداری کے آغاز کے بعد پاکستان نے بھارتی سکھوں کے حوالے سے اپنی پالیسی میں مزید مثبت تبدیلیاں کیں تاہم بھارت کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا۔ پاکستانی سکھوں کو آج بھی سرحد پار کرکے بھارتی حدود میں ڈیرہ بابا نانک جانے کی اجازت نہیں، اس کے لیے ویزا کی کڑی شرائط رکھی گئی ہیں۔
بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور فتنہ پرور بھارتی اینکرز بلوچستان کے حالات کو بہت ہوا دیتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں خالصتان کی تحریک مکمل جواز بھی رکھتی ہے اور بھارت کے اندر اور باہر اس کی قبولیت بھی بڑھتی جارہی ہے، اس کا ذکر نہیں کرتے۔
کسی پاکستانی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کو توڑے۔ اس حرکت سے یقینا بھارتی سازشی پالیسی ساز خوش ہوئے ہوں گے، اسی پہلو کو اس وقت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے لوگ اس حساس مسئلے کو پر غور نہیں کرتے۔ میرے خیال میں پاکستان کی سلامتی کے لیے یہ ضروری ہے کہ مشرقی پنجاب کے لوگ ہمارے حق میں رہیں۔ یہ دفاعی لحاظ سے بھی بہت ضروری ہے۔