دنیا کے جتنے بھی لیڈر ہیں جب ان کے پاس اقتدار نہیں ہوتا تو ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے اور جب اقتدار مل جائے تو پھر اس طاقت سے اپنی میراث (لیگیسی) کیا چھوڑنی ہے، یہ سب سے اہم کام ہوتا ہے۔ کچھ لیڈر تو اپنی میراث کا فیصلہ خود کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے لیے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جارج بش کچھ بھی چاہتے ہوں لیکن ان کی حکومت اور ان کی صدارت کو نائن الیون اور وار آن ٹیرر کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کرکٹ اور ویلفیئر کی دنیا، دونوں میں بڑی زبردست میراث چھوڑی ہے۔ ایک طرف انہوں نے ورلڈ کپ جتوایا اور دوسری طرف شوکت خانم جیسے ادارے بنائے۔ لیکن اب جب انہیں تاریخ یاد کرے گی تو وہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے حوالے سے کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ اور حکومت کی لیگیسی کیا ہو گی؟ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش سے پہلے ایک زیادہ آسان سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے کہ ان کی لیگیسی کیا نہیں ہو گی۔
جس تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ تبدیلی واقع ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس معاشی بدحالی میں پاکستانیوں کے حالات اچھے ہو جانا مستقبل قریب میں ناممکن سا نظر آتا ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم صاحب، ان کی پارٹی اور ان کے حمایتی سب یہ بات تسلیم کر چکے ہیں، اس لیے اب نہ تو تبدیلی کی بات ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی کوشش نظر آتی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جو بھی کشمیر کا مسئلہ حل کرے گا، اس کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ جب وزیراعظم عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے اوول آفس میں میٹنگ کی اور کشمیر کے مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی دعوت دی تو یہ باتیں گردش کرنے لگی تھیں کہ عمران خان کشمیر کا مسئلہ حل کر لیں گے لیکن اب تو حالات ایسے بن چکے ہیں کہ ایسا ہوتا بھی نظر نہیں آرہا۔ تو اب وہ کیا چیزیں ہیں جن پر چار سال سے بھی کم عرصے میں تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنی میراث قائم کر سکے۔
کرپشن کا خاتمہ؟ وزیراعظم اور ان کی حکومت نے کرپشن ختم کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ یہ بڑا اہم کام ہے لیکن اس ضمن میں انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے جو بدقسمتی سے نظر نہیں آرہا، دوسرا، کرپشن صرف اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران تک محدود نہیں ہے۔ عام پاکستانی کرپشن کے خلاف آپ کی کامیابی کو تب مانے گا جب اس کو کسی بھی حکومتی دفتر میں اپنے کام کے لیے رشوت نہیں دینا پڑے گی۔ نواز شریف اور زرداری، آج دونوں جیل میں ہیں لیکن چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے پاکستانی آج بھی رشوت دے رہا ہے اور کرپشن آج بھی ہو رہی ہے۔ اگر عام پاکستانی کے لیے کرپشن ختم ہو جاتی ہے تو یہ اس حکومت کی ایک بڑی اور زبردست لیگیسی ہوگی۔
ادارہ جاتی اصلاحات؟ سانحہ ساہیوال ہو یا صلاح الدین کی پولیس حراست میں موت، پی آئی اے ہو، ریلوے ہو، ریونیو ڈپارٹمنٹ ہو یا کوئی اور سرکاری محکمہ، حکومت کے تقریباً تمام اداروں کے اندر ریفارمز کی ضرورت ہے۔ جب حکومت آئی تو ادارہ جاتی اصلاحات ایک اہم ایجنڈا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایسا لگنے لگا کہ یہ کام اقتدار کے لیے سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو گیا ہے۔ لیکن اگر حکومت واقعتاً اداروں کے اندر تبدیلی لے آئے جو اگرچہ ملک کے اندر نہیں آ سکی تو بھی یہ ایک بڑی لیگیسی ہوگی۔
خارجہ معاملات؟ کوئی شک نہیں کی وزیراعظم عمران خان دنیا بھر میں جہاں بھی گئے، انہوں نے کشمیریوں مقدمہ بھی لڑا اور پاکستان کا کیس بھی زبردست انداز میں پیش کیا۔ یہ ایک اہم لیگیسی بن سکتی ہے مگر جس طرح میں اپنے بیشتر کالموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ خارجہ امور مفادات پر چلتے ہیں، ذاتی پسند اور ناپسند پر نہیں۔ اگر خارجہ محاذ پر کامیابی چاہئے تو ہمیں خود کو دنیا کی ضرورت اور مجبوری بنانا پڑے گا۔ ملاقاتیں اور تقریریں اس عمل کا ایک اہم حصہ ہیں لیکن مکمل عمل نہیں ہیں اور اگر حکومت مکمل عمل میں کامیاب ہوئی تو یہ بھی ایک اچھی میراث ثابت ہو سکتی ہے۔
احساس؟ وزیراعظم نے ایک بڑا اہم اعلان کیا تھا کہ غریب لوگوں کی مدد کرنے کے لیے حکومت "احساس پروگرام" لانچ کرے گی۔ وعدے تو بہت سارے ہیں لیکن ایسے پروگراموں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس کے ساتھ زیادہ اہم لوگوں کو روزگار دینا ہے۔ جس طرح بیروزگاری بڑھی ہے اور معیشت خراب تر ہو رہی ہے، یہ بھی الٹ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن بہرحال یہ بھی ایک کامیابی بن سکتی ہے۔
وقت بڑی تیزی سے گزرتا ہے اور تحریک انصاف کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں محض برسر اقتدار آنا ہی اس حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ نہ قرار دیا جائے۔ اقتدار تو چند سالوں کا ہوتا ہے لیکن آپ کی میراث ہمیشہ کے لیے یاد رکھی جاتی ہے۔