آج کے ڈیجیٹل دور میں آپ کا ڈیٹا بہت اہم ہو چکا ہے۔ آپ کا ڈیٹا آپ کی تمام جائیداد، بینک اکاؤنٹس، اثاثوں کے ساتھ ساتھ آپ کی آزادی کی چابی اور رکھوالے، دونوں کا کام کرتا ہے اور دنیا کا دستور ہے کہ جو چیز قیمتی ہوتی ہے لوگ اسے چرانے اور اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کے ڈیٹا میں آپ کا شناختی کارڈ نمبر، بینک اکاؤنٹس نمبر، اے ٹی ایم پن کوڈ، آپ کا پتا اور وہ تمام معلومات شامل ہیں جس کے ذریعہ آپ کی حساس اور قیمتی چیزوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہو۔
ڈیٹا کی حفاظت کا معاملہ مشکل اس لئے ہے کیونکہ دیگر قیمتی چیزوں کی طرح اس کی چوری کا اتنی آسانی سے پتا نہیں چل سکتا۔ آپ کی گاڑی چوری ہو یا آپ کے پیسےچھن جائیں تو آپ کو فوراً علم ہو جاتا ہے لیکن آپ کا ڈیٹا چوری ہو تو آپ کو نظر نہیں آتا کیونکہ آپ کا ڈیٹا بظاہر آپ کے پاس موجود ہوتا ہے لیکن اس کی ایک کاپی کسی اور کے پاس بھی چلی جاتی ہے۔ اکثر اوقات آپ کو اپنے ڈیٹا کی چوری کا تب پتا چلتا ہے جب کوئی ڈیٹا کو غلط مصرف میں لائے یا اس کے ذریعے آپ کی کوئی اور چیز چوری کر لی جائے۔ اس لیے لازم ہے کہ ڈیٹا کی حفاظت پہلے دن سے یقینی بنائی جائے۔ اس ضمن میں جو چیزیں ہم خود کر سکتے ہیں وہ یہ کہ اپنی ذاتی معلومات کم سے کم جگہ پر دیں، شناختی کارڈ کی کاپی کی حفاظت کریں، شناختی کارڈ اور بینک کارڈز کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور انہیں ہرگز کسی کے حوالے نہ کریں، اگر کوئی معلومات مانگتا ہے تو اس سے پوچھیں کہ اسے یہ معلومات کیوں چاہئے اور یہ کس لیے استعمال ہو گی، بالخصوص فون یا ای میل پر اپنی معلومات کم سے کم دیں۔
ڈیجیٹل ناخواندگی کی وجہ سے بھی لوگ ڈیٹا چوروں کے شکنجے میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ اب ڈیٹا چرانے والوں نے بھی نئے نئے طریقے اپنانا شروع کر دیئے ہیں جس سے وہ لوگوں کا قیمتی ڈیٹا بآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ کو میسج یا کال آتی ہے کہ انکم سپورٹ میں آپ کے پیسے نکلے ہیں اور اتنے پیسوں کے موبائل کارڈز دے کر آپ اپنا انعام حاصل کر سکتے ہیں یا کوئی پولیس یا پاک فوج کا نمائندہ بن کر کہتا ہے کہ آپ کی معلومات درکار ہیں یا پھر آپ کو کال آتی ہے کہ آپ کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی مسئلہ آ گیا ہے جس کے لئے آپ کی چند معلومات درکار ہیں۔ اس طرح لوگ بلاتصدیق اپنی قیمتی معلومات ان چوروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ایسی بہت سی ای میلز اور ایس ایم ایس بھی آتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آج کے زمانے میں یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ کوئی آپ کو کسی اور نمبر سے کال کرے اور آپ کی فون اسکرین پر آپ کے بینک کا یا کوئی سرکاری نمبر نظر آ رہا ہو۔ اگر آپ کو کبھی اس طرح کی کال آئے تو ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ خود بینک یا سرکاری دفترجاکر معاملے کی جانچ پڑتال کریں۔
ڈیٹا کی حفاظت میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ڈیٹا کے واحد نگران آپ اکیلے نہیں ہوتے۔ آپ کی معلومات موبائل فون کمپنی سے لے کر بینکوں تک اور حکومت سے لے کر سیکورٹی اداروں تک سب کے پاس ہوتی ہے۔ اب یہاں پر آپ کا ڈیٹا کس طرح استعمال ہوتا ہے، کون کون اسے دیکھ سکتا ہے اور کس کس کی اس تک رسائی ہے، اس پر ایک سوالیہ نشان ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ لوگوں کے موبائل کال کے ریکارڈز بھی بیچے جاتے ہیں اور لوگوں کے بینک اکاؤنٹس کی انفارمیشن بھی۔ پچھلے دنوں تو یہ بھی خبر سامنے آئی کہ سائبر کرائم کے تحقیقاتی ادارے کے اپنے چند لوگ خود ہی لوگوں کو بلیک میل کر رہے تھے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے سیف سٹی کیمروں سے لی گئی چند گاڑیوں کی تصویریں بھی وائرل ہوئی تھیں جن کی ملکیت وغیرہ تک کی معلومات عام کر دی گئی تھی۔ ان تمام مسائل سے بچنے کیلئے پاکستان کو ایک سخت قانون کی ضرورت ہے جس طرح ترقی یافتہ ممالک میں ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے، اس میں کسی بھی ادارے کا ڈیٹا لیک ہونے یا اس کے غلط استعمال پر اس ادارے کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہمارے موجودہ قانون میں عام شہری کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
آج کے اس دور میں آپ کا ڈیٹا آپ کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور اس کی حفاظت آپ کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اس کی حفاظت اور اہمیت سے آگاہ کریں اور اپنے ڈیٹا کو اسی طرح محفوظ رکھیں جس طرح آپ اپنی جیب میں رقم کو محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ یہ ڈیٹا اس رقم سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کی بھی کچھ ذمہ داری ہے، ڈیٹا پر قانون سازی صرف عوام کی رائے کو بدلنے یا محدود رکھنے تک نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان کی جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اب جبکہ آنے والے دنوں میں ہر کرائم کے اندر ڈیٹا چوری اور سائبر کرائم کا عنصر نمایاں ہوگا اس کی حفاظت کے حوالے سے ہر پاکستانی کی ٹریننگ ہونی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں آگاہی بڑھانے کیلئے ایک وسیع پروگرام کی ضرورت ہے جو عوام کے ساتھ حکومتی اہلکاروں میں بھی ڈیٹا کی اہمیت کا شعور پیدا کرے وگرنہ آنے والے دنوں میں ڈیٹا کی چوری اور غلط استعمال ایک بہت بڑا کرائسس بنے گا جو ہماری سیکورٹی سے لے کر معیشت تک منفی اثرات پھیلائے گا۔