حضرت سیدنا شیخ عبداللہ خیاط رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک آتش پرست کپڑے سلواتا اور ہر بار اُجرت میں کھوٹا درہم دے جاتا، آپ اس کو لے لیتے۔ ایک بار آپ رحمۃ اللہ علیہ کی غیرموجودگی میں شاگرد نے آتش پرست سے کھوٹا سکہ نہ لیا۔ جب سیدنا شیخ عبداللہ خیاط رحمۃ اللہ علیہ واپس تشریف لائے اوران کو معلوم ہوا تو شاگردسے فرمایا، تونے درہم کیوں نہیں لیا؟ کئی سال سے وہ مجھے کھوٹا سکہ ہی دیتا رہا ہے اور میں بھی چپ چاپ لے لیتاہوں تاکہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو نہ دے آئے۔
اس واقعہ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پہلے کے بزرگوں میں احترامِ مسلم کا جذبہ کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کسی انجانے مسلمان بھائی کو اتفاقی نقصان سے بچانے کیلئے اپنا خسارہ گوارا کر لیا جاتا تھا جبکہ آج تو بھائی بھائی کو ہی لوٹنے میں مصروف ہے۔ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوت اسلامی دورِ اسلاف کی یاد تازہ کرنا چاہتی ہے۔ دعوت اسلامی نفرتیں مٹاتی اورمحبتوں کاپیغام سناتی ہے۔
والدین ودیگر ذولارحام (یعنی جن کے ساتھ خونی رشتہ ہو درجہ بدرجہ) معاشرہ میں سب سے زیادہ احترام وحسن سلوک کے حقدارہوتے ہیں مگر افسوس کہ اس کی طرف اب کم ہی دھیان دیا جاتاہے۔ بعض لوگ عوام کے سامنے انتہائی منکسر المزاج وملنسار گردانے جاتے ہیں مگر وہ اپنے گھر میں نہایت ہی تندمزاج و بداخلاق ہوتے ہیں، ایسوں کی توجہ کیلئے عرض ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم نورمجسم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے، "تین شخض جنت میں نہیں جائیں گے، ماں باپ کو ستانے والا، دیوث اورمردانی وضع بنانے والی عورت"۔
والدین کے ساتھ ساتھ دیگر اہل خاندان مثلاً بھائی بہنوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے، والد کے بعد دادا جان اوربڑے بھائی کا رتبہ ہے کہ بڑا بھائی والد کی جگہ ہوتاہے۔ تاجدار رسالت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ "بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ایساہے جیسے کہ والد کا حق اولاد پر"۔
والدین کو بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کے حقوق کا خیال رکھیں، انہیں ماڈرن بنانے کی بجائے سنتوں کاچلتاپھرتا نمونہ بنائیں، ان کے اخلاق سنواریں، بری صحبتوں سے دُور رکھیں۔ آج کل شاید ماں باپ یہی اولاد کے حقوق سمجھتے ہیں کہ ان کو صرف دنیوی تعلیم دلوادی جائے اور ان کو مال کمانا آ جائے، آہ! لباس اور بدن کو تو میل کچیل سے بچانے کا ذہن تو ہوتاہے مگر بچے کے دِل اوراعمال کی پاکیزگی کاکوئی خیال نہیں ہوتا۔ اللہ کے محبوب دانائے غیوب ﷺ نے فرمایا: "کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے وہ اس کیلئے ایک صاع صدقہ کرنے سے افضل ہے"
افسوس! آج کل ہمارے گھروں میں مدنی ماحول بالکل نہیں، اس میں کافی حد تک ہمارا بھی قصور ہے۔ گھر والوں کے ساتھ حددرجہ بے تکلفی، ہنسی مذاق، بداخلاقی اور بہت زیادہ بے توجہی وغیرہ اس کے اسباب ہیں، عام لوگوں کے ساتھ توہمارے بھائی انتہائی عاجزی اور مسکینی سے پیش آتے ہیں مگر گھر میں "شیرببر" کی طرح دھاڑتے ہیں۔ یادرکھئے! اس طرح گھر والوں پر وقار قائم ہوتا ہی نہیں، وہ بیچارے اکثر اصلاح سے محروم رہ جاتے ہیں۔ خبردار! اگر آپ نے اپنے اخلاق نہ سنوارے، گھروالوں کے ساتھ عاجزی اورخندہ پیشانی کا مظاہرہ کرکے ان کی اصلاح کی کوشش نہ کی تو کہیں جہنم میں نہ جا پڑیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتاہے، (ترجمہ کنز الایمان) "اے ایما ن والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں "۔
اسکے تحت خزائن العرفان میں ہے، اللہ تعالیٰ اور اسکے پیارے رسول ﷺ کی فرمانبرداری اختیار کر کے، عبادتیں بجا لا کر، گناہوں سے باز رہ کر اور گھر والوں کی نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کر کے اورانہیں علم و ادب سکھا کر۔ ( اپنی جانوں اوراپنے گھر والوں کوجہنم کی آگ سے بچائو)۔ حضرت سیدنا عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "جس کویہ پسند ہو کہ عمر میں درازی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور رشتہ داروں سے سلوک کرے"۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا"۔
ان فرامین سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو بات بات پر اپنے رشتہ داروں سے ناراض ہوتے اوران سے مراسم توڑ لیتے ہیں، ایسوں کو چاہئے کہ اگرچہ رشتوں داروں ہی کا قصور ہو، صلح کیلئے خود پہل کریں اورخندہ پیشانی کے ساتھ ان سے تعلقات سنوار لیں، ہاں اگر کوئی شرعی مصلحت مانع ہے توبے شک صلح نہ کریں۔
مر د کو چاہئے کہ اپنی زوجہ کیساتھ حسن سلوک کرے۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے، ــ"بیشک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے تمہارے لئے کسی طرح سیدھی نہیں ہو سکتی، اگر تم اس سے نفع چاہتے ہو تواس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی نفع حاصل کرسکتے ہواور اگر اس کو سیدھا کرنے لگو تو توڑ ڈالو گے اور اسکا توڑنا طلاق دینا ہے"۔
معلوم ہو اکچھ نہ کچھ خلاف مزاج حرکتیں اس سے سرزد ہوتی رہیں گی، مرد کو چاہئے کہ صبر کرتارہے۔ آپ ﷺ کافرمانِ روح پرورہے، "کامل ایمان والوں میں سے وہ بھی ہے جو عمدہ اخلاق والااور اپنی زوجہ کے ساتھ سب سے زیادہ نرم طبیعت ہو"۔
اس حدیث پاک میں ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے جو بات بات پر اپنی زوجہ کو جھاڑتے بلکہ مارتے ہیں، ایک صنف نازک پر قوت کا مظاہرہ کرنا مردانگی نہیں بلکہ پرلے درجہ کی نامردی ہے۔ اگرچہ عورت کی بھول ہو تب بھی درگزر سے کام لینا چاہئے کہ جب عورت سے کثیر منافع بھی حاصل ہوتے ہیں تو اس کی نادانیوں پر صبر بھی کرنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "مومن مرد مومنہ عورت سے دشمنی نہیں رکھ سکتا، اگر اسکی ایک خصلت بر ی لگے گی تو دوسری پسند آجائیگی"۔
بیوی کوبھی چاہئے کہ اپنے شوہر کے ساتھ نیک سلوک کرے، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر قدم سے سر تک شوہر کے تمام جسم میں زخم ہوں جن سے پیپ اور کچ لہو (یعنی پیپ ملا خون) بہتاہو پھر عورت اسے چاٹے تب بھی حق شوہر ادانہ کیا"۔
بات بات پر روٹھ کر میکے چلی جانے والی عورت حدیث پاک کے ان الفاظ کو بار بار اپنے کانوں پر دہرائے۔ سرکار مدینہ ﷺ کافرمان عالیشان ہے: "اور (بیوی) بغیراجازت کے اس (یعنی شوہر) کے گھر سے نہ جائے، اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے اللہ عزوجل اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں "۔ عرض کی گئی، اگرچہ شوہر ظالم ہو؟ سرکار ﷺ نے فرمایا: "اگرچہ ظالم ہو"۔
بعض خواتین اپنے شوہر کی سخت نافرمانیاں اور ناشکریاں کرتی ہے، ذرا کوئی بات بری لگ جائے توپچھلے تمام احسانات بھلا کر کوسنا شروع کر دیتی ہیں، جو اسلامی بہنیں بات بات پر لعنت ملامت کرتی اور پھٹکار برساتی رہتی ہیں ان کوڈر جانا چاہئے کہ سرکارنامدار ﷺ ایک بار عید کے روز عیدگاہ تشریف لے جاتے ہوئے خواتین کی طرف گزرے توفرمایا، "اے عورتو! صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے اکثر تم کو جہنمی دیکھاہے"۔ خواتین نے عرض کیا: "یارسول اللہ(ﷺ)، اس کی وجہ"؟ فرمایا، "اس لئے کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اورناشکری کرتی ہو"۔
ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتائو کرے اور بلامصلحت شرعی ا ن کے احترام میں کمی نہ کرے۔ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت باعظمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ(ﷺ)!مجھے یہ کیونکر معلوم ہوکہ میں نے اچھا کیا یا برا؟ فرمایا: "تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا، تو تم نے اچھا کیا اورجب یہ کہتے سنو کہ تم نے براکیا تو بیشک تم نے بر ا کیاہے"۔
پڑوسیوں کی اس قدر اہمیت کے "کیریکٹر سرٹیفکیٹ" ان کے ذریعے ملے، افسوس پھر بھی آج پڑوسیوں کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا۔
سفر میں جو امیر قافلہ ہو، اس کو اپنے رفقاء کا احترام اور ان کی بہت زیادہ خدمت کرنی چاہئے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے: "سفر میں وہی امیر ہے جو ان کی خدمت کرے، جو شخض خدمت میں بڑھ گیا تو اسکے رفقاء کسی عمل میں اس سے نہیں بڑھ سکتے، ہاں اگران میں سے کوئی شہید ہوجائے تو وہی بڑھ جائیگا"۔
ایک موقع پر سرکار مدینہ ﷺ نے سفر میں ارشاد فرمایا: "جس کے پاس فالتو سواری ہووہ بے سواری والے کوعطا کردے اور جس کے پاس بچی ہوئی خوراک ہو وہ بغیر خوراک والے کو کھلادے" اور اسی طرح دوسری چیزوں کے متعلق ارشاد فرمایا۔ حضرت سیدناابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، آپ ﷺ نے اسی طرح مال کی مختلف اقسام کا ذکر فرمایا حتیٰ کہ ہم نے محسوس کیا کہ بچی ہوئی چیز میں سے کسی کواپنے پاس رکھ لینے کا حق ہی نہیں ہے۔
ماتحتوں کے بارے میں سوال ہو گا، ایک امیر قافلہ ہی نہیں، ہر ایک کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرناضروری ہے جیساکہ اللہ عزوجل کے محبوب ﷺ نے فرمایا: "نگہبان اور نگہبانی کے متعلق سب سے پوچھ گچھ ہو گی، بادشاہ نگہبان ہے، اسکی رعایا کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور مرد اپنے گھرکانگہبان ہے اور اسکی رعایا کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہرکے گھر میں نگہبان ہے اور اسکی رعایا کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔
دورانِ سفر کسی ایک پر سارا بوجھ ڈال دینے کی بجائے کاموں کی آپس میں تقسیم ہونی چاہئے، چنانچہ ایک مرتبہ کسی سفر میں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بکری ذبح کاکام لیا تو کسی نے کھال ادھیڑنے کا، نیز کوئی پکانے کا ذمہ دار ہو گیا۔ سرکار نامدار ﷺ نے فرمایا: "لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ ہے"۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان عرض گزار ہوئے، آقا (ﷺ)! یہ بھی ہم ہی کرلیں گے۔ فرمایا: "یہ تومیں بھی جانتاہوں کہ آپ حضرت بخوشی کر لیں گے مگر مجھے یہ پسند نہیں کہ آپ لوگوں میں نمایاں رہوں اور اللہ عزوجل بھی اس پسند نہیں فرماتا ہے"۔
دورانِ سفر ٹرین یابس وغیرہ میں اگر نشستیں کم ہوں تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بعض بیٹھے ہی رہیں اور بعض کھڑے کے کھڑے ہی سفر کریں بلکہ باری باری سب بیٹھیں اور تکلیفیں اٹھا کر ثواب کمائیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں فی اونٹ تین افراد تھے، چنانچہ حضرت ابولبابہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سرکار مدینہ ﷺ کی سواری میں شریک تھے۔ دونوں حضرات کا بیان ہے کہ جب سرکارﷺ کی پیدل چلنے کی باری آتی تو ہم دونوں عرض کرتے کہ آپ (ﷺ) سوار ہی رہیں، آپ (ﷺ) کے بدلے ہم پیدل چلیں گے۔ ارشاد ہوا: "تم مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور میں بہ نسبت تمہارے ثواب سے بے نیا ز نہیں ہوں۔ (یعنی مجھ کوبھی ثواب چاہئے پھر میں کیوں پیدل نہ چلیں۔
اجتماعات وغیرہ میں جہاں لوگ زیادہ ہوں، وہاں اپنی سہولت کیلئے زیادہ جگہ گھیر کر دوسروں کیلئے تنگی کا باعث نہیں بننا چاہئے، چنانچہ حضرت سیدنا سہیل بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے، میرے والد گرامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پیارے آقا ﷺ کیساتھ جہاد میں گئے تو لوگوں نے منزلیں تنگ کر دیں (یعنی ضرورت سے زیادہ جگہ گھیری) اور راستہ روک لیا لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کوبھیجا کہ وہ یہ اعلان کرے، "بیشک جومنزلیں تنگ کرے یا راستہ روکے تو اس کاکچھ جہاد نہیں "۔
جوپہلے سے بیٹھے ہوں ان کیلئے سنت ہے کہ آنے والیکیلئے سرک جائیں اورجگہ کشادہ کریں۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم نورمجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "جب تم تین ہو تو دو شخص تیسرے کو چھوڑ کر چپکے چپکے باتیں نہ کریں، جب تک مجلس میں بہت لوگ نہ آ جائیں، یہ اس وجہ سے کہ تیسرے کو رنج پہنچے گا"، (کہ شاید میرے متعلق کچھ کہہ رہے ہیں یا یہ کہ مجھے اس لائق نہ سمجھا جو اپنی گفتگو میں شریک کرتے وغیرہ)
جو لوگ جمعہ کو پہلے سے اگلی صفوں میں بیٹھ چکے ہوں، ان کی گردنوں کو پھلانگتے ہوئے آگے بڑھنے کی دیر سے آنے والے کو اجازت نہیں۔ چنانچہ سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جو جمعہ کے دن لوگوں کی گردنوں کو پھلانگے، اس سے بروز قیامت جہنمیوں کا پل بنایا جائے گا۔
اگر دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر ان کے درمیان جا گھسنا سخت بداخلاقی اور احترام مسلم کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ﷺ نے فرمایا کہ "کسی شخص کیلئے یہ حلال نہیں کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر جدائی کر دے"۔
احترام مسلم کا تقاضا یہ ہے کہ ہرحال میں ہر مسلمان کے تمام حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور بلااجازت شرعی کسی مسلمان کی دل شکنی نہ کی جائے، جناب رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی کسی مسلمان کا دِل نہ دکھایا، نہ کسی پر طنز کیا، نہ کسی کا مذاق اُڑایا نہ کسی کو دھتکارا، نہ کبھی کسی کی بے عزتی کی بلکہ ہر ایک کو سینے سے لگایا۔
احترام مسلم بجالانے کیلئے ہمیں اپنے پیارے پیارے آقا ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی پیروی کرنا ہو گی۔ قرآن مجید کے پارہ ۲۱ میں سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر۲۱ میں ارشاد ربانی ہے: "بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے"۔
حضور نبی کریم ﷺ یقینا تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ مکرم اورمعظم و محترم ہیں اور آپ ﷺ کا ہر حال میں احترام کرنافرض اعظم ہے، ہمیں چاہئے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی میٹھی میٹھی سنتوں پر ضرور بہ ضرور عمل کریں۔