صحرائے عرب میں ایک قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا، اثنائے راہ (یعنی راستے میں) پانی ختم ہو گیا، قافلے والے شدت پیاس سے بے تاب ہو گئے اور موت ان کے سروں پر منڈلانے لگی کہ کرم ہو گیا یعنی اچانک دونوں جہاں کے فریاد رس میٹھے میٹھے مصطفیؐ ان کی امداد کیلئے تشریف لے آئے۔ اہل قافلہ کی جان میں جان آ گئی! سرکارؐ نے فرمایا "وہ سامنے جو ٹیلہ ہے اسکے پیچھے ایک سانڈنی سوار سیاہ فام حبشی غلام گزر رہا ہے۔ اسکے پاس ایک مشکیزہ ہے، اسے سانڈنی سمیت میرے پاس لے آؤ"۔ چنانچہ کچھ لوگ ٹیلے کے اس پار پہنچے تو دیکھا کہ واقعی ایک سانڈنی سوار حبشی غلام جا رہاہے۔ لوگ اس کو تاجدار رسالتؐ کی خدمت سراپا عظمت میں لے آئے۔ شہنشاہِ خیر الانامؐ نے اس سیاہ فام غلام سے مشکیزہ لیکر اپنا دست بابرکت مشکیزے پر پھیر اور مشکیزے کا منہ کھول دیا اور فرمایا:
"آؤ پیاسو! اپنی پیاس بجھاؤ"۔ چنانچہ اہل قافلہ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنے برتن بھی بھر لئے۔ وہ حبشی غلام یہ معجزہ دیکھ کر نبیوں کے سرورؐ کے دست انور چومنے لگا۔ سرکار نامدارؐ نے اپنا دست پرانوار اس کے چہرے پر پھیر دیا یعنی اس حبشی کا سیاہ چہرہ ایسا سفید ہو گیا جیسا کہ چودہویں کا چاند اندھیری رات کو روز روشن کی طرح منور کر دیتا ہے۔ اس حبشی کی زبان سے کلمہ شہادت جاری ہو گیا اور وہ مسلمان ہو گیااور یوں اس کا دل بھی روشن ہو گیا۔ جب مسلمان ہو کر وہ اپنے مالک کے پاس پہنچا تو مالک نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ وہ بولا: میں وہی آپ کا غلام ہوں۔ مالک نے کہا: وہ تو سیاہ فام غلام تھا۔ کہا: ٹھیک ہے مگر میں مدنی حضور سراپا نورؐ پر ایمان لا چکا ہوں۔ میں نے ایسے نور مجسم کی غلامی اختیار کر لی ہے کہ اس نے مجھے (یعنی چودھویں کے روشن چاندکی طرح) بنا دیا جس کی صحبت میں پہنچ کر سب رنگ اڑ جاتے ہیں، وہ تو کفر و معصیت کی سیاہ رنگت کو بھی دُور فرما دیتے ہیں، اگر میرے چہرے کا سیاہ رنگ اڑ گیا تو اس میں کون سی تعجب کی بات ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دو جہان کے سلطانؐ کی شان عظمت نشان پر میری جان قربان! اللہ اللہ! پہاڑ کے پیچھے گزرنے والے آدمی کی بھی کس شان سے خبر دیں کہ اسکا رنگ کالا ہے اور وہ سانڈنی پر سوار ہے اور اسکے پاس مشکیزہ بھی ہے، پھر عطائے الٰہی عزوجل سے ایسا کرم فرمایا کہ مشکیزہ کے پانی نے سارے قافلے کو کفایت کیا اور مشکیزہ اسی طرح بھرا رہا، مزید سیاہ فام غلام کے منہ پر نورانی ہاتھ پھیر کر کالے چہرے کو نور نور کر دیا حتیٰ کہ اس کا دل بھی روشن ہو گیا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
جب سرکارنامدارؐ کسی کے چہرے اور سینے پر دست پرانوار پھیر دیں تو وہ روشنی دینے لگ جائے تو خودحضور سراپا نورؐکی اپنی نورانیت کاکیاعالم ہوگا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: "جب سرکار نامدارؐ گفتگو فرماتے تو دیکھا جاتا گویا حضور پر نورؐ کے اگلے مبارک دانتوں کی مقدس کھڑکیوں سے نورنکل رہا ہے"۔ جب رحمت عالمؐ مسکراتے تھے تو درودیوار روشن ہو جاتے۔
اُم المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہیں: میں سحری کے وقت گھر میں کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اورساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا، اتنے میں مدینے کے تاجدارؐ گھر میں داخل ہوئے اور سارا گھر مدینے کے تاجورؐ کے چہرہئ انور کے نور سے روشن و منور ہو گیا اور گمشدہ سوئی مل گئی۔
سبحان اللہ! حضور پرنورؐ کی شان نور علی نور کی بھی کیا بات ہے! مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رحمت عالمﷺ بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نوری بشر ہیں، ظاہری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔
حضرت سیدتنا انیسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: مجھے میرے والد محترم نے بتایا: میں بیمار ہوا تو سرکار عالی وقارؐ میری عیادت کیلئے تشریف لائے دیکھ کر فرمایا: تمہیں اس بیماری سے کوئی حرج نہیں ہو گا لیکن تمہاری اس وقت کیا حالت ہوگی جب تم میرے وصال کے بعد طویل عمر گزار کر نابینا ہو جاؤ گے؟ یہ سن کر میں نے عرض کی: یارسول اللہؐ! میں اس وقت حصول ثواب کی خاطر صبر کروں گا۔ فرمایا: اگر تم ایسا کرو گے تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ چنانچہ صاحب شیریں مقالؐ کے ظاہری وصال کے بعدان کی بینائی جاتی رہی، پھر ایک عرصہ کے بعد اللہ عزوجل نے ان کی بینائی لوٹا دی اور ان کا انتقال ہو گیا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے اللہ کے محبوبؐ اپنے پروردگار عزوجل کی عطا سے اپنے غلاموں کی عمروں سے بھی باخبر ہیں اوران کیساتھ جو کچھ پیش ہونیوالا ہے اسے بھی جانتے ہیں۔ قرآن پاک کی بیشمار آیات مبارکہ سے سرکار مدینہؐ کے علم غیب کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں صرف ایک آیت کریمہ پیش کی جاتی ہے۔ چنانچہ پارہ 30 سورۃ التکویر کی آیت نمبر24 میں ارشاد خداوندی ہے: ترجمہ کنزالایمان: اور یہ نبی ؐ غیب بتانے میں بخیل نہیں۔ (پ 30 التکویر24)
بیان کردہ روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی مصیبت آئے یا مسلمان معذور ہو جائے تو اسے صبر کر کے اجر کا حقدار بننا چاہئے، چنانچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرامؐ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: "جب میں اپنے بندہ کی آنکھیں لے لوں پھر وہ صبر کرے، تو آنکھوں کے بدلے اسے جنت دوں گا"۔
ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں ایک تاجر آیا۔ اس سے ابوجہل نے مال خرید لیا مگر رقم دینے میں پس و پیش کی، وہ شخص پریشان ہو کراہل قریش کے پاس آ کر بولا: آپ میں سے کوئی ایسا ہے جو مجھ غریب اور مسافرپر رحم کھائے اور ابوجہل سے میرا حق دلوائے؟ لوگوں نے مسجد کے کونے میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا: ان سے بات کرو، یہ ضرور تمہاری مدد کریں گے۔ اہل قریش کے"ان صاحب" کے پاس بھیجنے کا منشا یہ تھا کہ اگر یہ صاحب ابو جہل کے پاس گئے تو وہ ا ن کی(نعوذباللہ) توہین کریگا اوریہ لوگ(یعنی بھیجنے والے) اس سے حظ (یعنی لطف) اٹھائیں گے۔ مسافر نے ان صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا احوال سنایا، وہ اٹھے اور ابو جہل کے دروازے پر تشریف لائے اور دستک دی۔ ابو جہل نے اندر سے پوچھا: کون ہے؟ جواب ملا محمدؐ۔ ابو جہل دروازے سے باہر نکلا، اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ پوچھا: کیسے آنا ہوا؟
بے کسوں کے فریاد درس، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس کا حق کیوں نہیں دیتا؟ عرض کی: ابھی دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اندر گیا اور رقم لا کر مسافر کے حوالے کر دی اوراندر چلا گیا۔ دیکھنے والوں نے بعد میں پوچھا: ابو جہل! تم نے بہت عجیب کام کیا۔ بولا: بس کیا کہوں، جب محمدعربی(ﷺ) نے اپنا نام لیا تو ایک دَم مجھ پر خوف طاری ہو گیا، جونہی میں باہر آیا تو ایک لرزہ خیز منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دیو پیکر اونٹ کھڑا ہے، اتنا خوف ناک اونٹ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، چپ چاپ بات مان لینے ہی میں مجھے عافیت نظر آئی ورنہ وہ اونٹ مجھے ہڑپ کر جاتا۔