جماعت اسلامی کی سیاست اور سوچ سے کوئی جتنا اختلاف کرے، ایک بات ہر کوئی مانے گا کہ یہ ایک منظم اور ڈسپلنڈ جماعت ہے اور اس کے کارکن نہ صرف تربیت یافتہ ہیں بلکہ عددی قوت میں نسبتاً کم ہونے کے باوجود وقت پڑنے پر نمایاں پرفارم کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں جماعت کے جاری کامیاب دھرنے نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کر دی ہے۔
یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ میرے بہترین دوستوں میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے یا اس کی حمایت کرنے والے کئی ہیں، جبکہ جماعت کے ناقد یا جماعتی سیاست سے اتفاق کرنے والوں کی بھی میرے حلقہ احباب میں کمی نہیں۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی کے حوالے سے دونوں طرف کا موقف اور نقطہ نظر فوری طور پر ہم تک پہنچ جاتا ہے۔ جماعت کہیں کچھ اچھا کرے، الخدمت کوئی بڑا سماجی خدمت کا کام کرے یاپھر جمعیت کے شاہسوار پنجاب یونیورسٹی یا کسی اور جگہ کوئی گل کھلائیں (پنجابی محاورے کے مطابق چن چڑھائیں)تو خاکسار کے فون میں واٹس ایپ میسجز کی بھرمار شروع ہوجاتی ہے۔ اچھے کام کی اطلاع بھی ملتی رہتی اور قابل تنقید کاموں کی فہرست بھی ہمیں فوری پہنچائی جاتی ہے۔
ایک پروفیشنل صحافی ہونے کے ناتے ہمارا یہ پختہ یقین ہے کہ صحافی کو کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اسے کسی قسم کی سرکاری ملازمت یاذمہ داری لینا چاہیے۔ اخبارنویسوں میں سے البتہ جو کالم نگار یا تجزیہ کار ہیں، انہیں کرنٹ افیئرز اور رونما ہونے والے واقعات پر اپنی رائے دینا پڑتی ہے۔ کسی معاملے پر تنقید، توصیف یا اس کا غیر جانبدارانہ محاکمہ۔ سیاسی جماعتوں کے طرزعمل اور سیاست پر بھی رائے دینا ہوتی ہے۔ کبھی وہ کسی کے حق میں جاتی ہے تو کبھی اس کے خلاف۔
جب جماعت اسلامی کا ذکر بطور سیاسی جماعت ہوتاہے تو اس کی پالیسیوں، سیاسی اتحاد وغیرہ پر ہم بھی اپنی صحافیانہ رائے دیتے ہیں۔ کبھی کبھار جماعتی احباب اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ دراصل آج کل یہ چلن عام ہوگیا کہ سیاسی کارکن یا کسی سیاسی جماعت کا حامی آزادانہ رائے برداشت ہی نہیں کرتے۔ انہیں کوئی تجزیہ کار نہیں چاہیے، وہ تو صرف ایک صحافی ایجنٹ، ٹائوٹ اور پریس ریلیز پر چلنے والی کٹھ پتلی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ تاہم جماعت کے نظم میں تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ دوسروں سے بہتر ہی ہے۔
جماعت اسلامی کی دو خوبیاں نمایاں ہیں۔ یہ ملک کی واحد جمہوری، سیاسی جماعت ہے۔ جہاں پر نہایت باقاعدگی کے ساتھ شفاف ترین طریقے سے انتخابات ہوتے ہیں۔ جہاں موروثی سیاست صفر ہے اور نامزدگیوں کے بجائے اراکین کی تنظیمی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جس کا سربراہ ایک منتخب شوریٰ کے آگے باقاعدہ جوابدہ ہے اور وہ چاہنے کے باوجود کسی رکن شوریٰ کو نکال نہیں سکتا۔ ایسا پاکستان کی کسی بھی اور سیاسی، مذہبی جماعت میں نہیں ہوتا۔ جماعت کا کلچر بالکل مختلف اور نہایت جمہوری ہے۔ دوسرا بڑا فیکٹر یہ ہے کہ جماعت اسلامی واحد اسلامی جماعت ہے جو عالمی تحاریک اسلامی سے بھی فکری جڑت رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں باقی تمام دینی سیاسی جماعتیں دراصل مسلکی بنیاد پر قائم ہیں اور ان کا عالمگیر سطح پر مسلم تحریکوں یا تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں۔
اس سب کچھ کے باوجود جماعت اسلامی پچھلے کئی برسوں سے زوال کا شکار رہی ہے۔ اس کا ووٹ بینک نیچے آیا اور اسمبلیوں میں نمائندگی کم سے کم تر ہوتی گئی۔ درحقیقت قاضی حسین احمد کے بعد جماعت اسلامی ایک خاص قسم کے جمود کا شکار رہی اور بدلتے حالات میں وہ اپنے آپ کو سیاسی طور پر زیادہ متعلق نہیں بنا سکی۔ دو ہزار دو جماعت کیلئے انتخابی سیاست کے اعتبار سے بہترین رہا، جب ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انہیں بڑی کامیابیاں ملیں۔ اگلے الیکشن میں جماعت نے بائیکاٹ کیا۔ دو ہزار تیرہ میں جماعت اسلامی نے صرف پختون خوا کے دو اضلاع دیر، بونیر سے تین قومی اسمبلی کی نشستیں جیتیں اور وہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا حصہ بھی بنی۔ دو ہزار اٹھارہ میں جماعت کا شیئر مزید سکڑ گیا، پورے ملک میں سے صرف چترال سے ایک سیٹ ملی۔ دو ہزار چوبیس کے انتخابات میں ایک سیٹ بھی نہ ملی۔ اس ناکامی کی کئی وجوہات ہوں گی، جن کی تفصیل میں سردست نہیں جا رہا۔ بہرحال پچھلے دس برسوں میں سراج الحق امیر جماعت تھے۔ ان ناکامیوں کا بوجھ انہیں اٹھانا پڑا اور شائد اسی وجہ سے وہ اس بار امیر جماعت منتخب نہیں ہوئے۔
حافظ نعیم الرحمن کی جماعت اسلامی میں کامیابیوں کا سفر خاصا تیزرفتار اور خلاف معمول رہا۔ ان کی تمام تر سیاست کراچی کی رہی۔ وہ کبھی مرکزی سطح کی بڑی ذمہ داری پر فائز نہیں رہے۔ نائب امیر یا قیم، نائب قیم کی ذمہ داری نہیں ملی۔ کراچی کے امیرکے طور پر البتہ انہوں نے اپنی جارحانہ اور عوامی سیاست سے بڑی مقبولیت اور پزیرائی حاصل کی۔ حقیقت یہ ہے کہ حافظ نعیم کی سیاست نے جماعت میں موجود بہت بڑے خلا کو پرکیا۔ وہ جماعت کے اراکین کی توجہ کا مرکز بنے اور خاص طور سے نسبتاً جوان العمر لوگوں نے ان سے بڑی امیدیں لگالیں۔
حافظ نعیم الرحمن جب مرکزی امیر جماعت اسلامی بنے تو انہوں نے اپنی ابتدائی تقریروں میں اس کے اشارے دئیے کہ وہ عوامی سیاست ہی کریں گے، عوامی ایشوز کو اٹھائیں گے اور دیگر جماعتوں سے اتحاد کے بجائے اپنی الگ شناخت کے ساتھ چلیں گے۔ بجلی کے مہنگے بلوں اور آئی پی پیز کے استحصالی کیپیسٹی چارجز کے مسئلے پر اپنااحتجاجی دھرنے کا اعلان کرکے انہوں نے اپنی کراچی والی عوامی سیاست کی لیگیسی ہی کو آگے بڑھایا۔ جماعت اب پچھلے تین دنوں سے مری روڈ پر احتجاجی دھرنا دئیے بیٹھے ہے۔ ان کا دھرنا خاصا بھرپور جار ہا ہے۔ اسلام آباد کے حبس آلود موسم اور بیچ میں ٹھیک ٹھاک بارشوں کے باوجودلوگوں کی اچھی خاصی تعداد جمع رہی ہے اور لوگ استقامت سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ اگلے کئی دنوں تک کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں، تنظیمی طور پر پورے ہفتے کے اہداف سونپ دئیے گئے۔
حافظ نعیم الرحمن کے دھرنے کو ابتدا میں حکومت نے روکنے کی خاصی کوشش کی، فیض آباد اور مختلف جگہوں پر کنٹینر لگا دئیے گئے تھے، جماعت کے مختلف شہروں سے قافلوں کو روکا گیا اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ جماعت نے جب تین جگہوں پر دھرنا شروع کر دیا، تب انتظامیہ انہیں مری روڈ پر ایک ہی جگہ دھرنا دینے پر رضامند ہوگئی۔ تحریک انصاف کے لوگ معمولی سا احتجاج کریں تو انتظامیہ بہت سختی سے پیش آتی ہے، کارکن پکڑے جاتے اورمیڈیا پر کوریج نہیں کرنے دی جاتی۔ جماعت اسلامی نے پہلے روز کچھ مشکل وقت دیکھا، مگر اس وقت وہ سکون سے اپنا دھرنا دئیے بیٹھے ہیں، کوئی انتظامی مشکل آڑے نہیں۔ میڈیا پر انہیں بھرپور کوریج دی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کے کارکن اس پر خاصے بھنائے بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ شرو ع کردیا ہے۔ بیانیہ بنانے میں ویسے بھی انصافین کو یدطولیٰ حاصل ہے، وہ کمال مہارت سے دلچسپ میمز بنانے اور طنزیہ پوسٹیں بناتے، شیئر کرتے ہیں۔ دو تین دنوں سے یہ سب ہنر جماعت اسلامی کے خلاف آزمایا جا رہا ہے۔ جماعت والے بھی جواب دے رہے ہیں۔ دونوں فریق اپنی انرجی بیکار میں ضائع کر رہے ہیں۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی فطری اتحادی ہیں۔ آپس میں لڑائی کے بجائے انہیں مشترکہ نکات ڈھونڈنے چاہئیں۔
جماعت کے ایک دوست سے اس پر بات ہوئی، انہیں تحریک انصاف کے اعتراضات بتائے تو وہ جھنجھلا کر بولے، ہمارے دھرنے کی حکومت نے مخالفت کی اور لوگ اکھٹے ہونے میں رکاوٹ ڈالی، اب اگر اپنی کسی مصلحت کے باعث وہ ہمارے اوپر لاٹھی چارج نہیں کر رہے، آنسو گیس نہیں پھینک رہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہم تو ہر قسم کی مشکل اور کٹھنائی کے لئے تیار ہو کر آئے تھے۔ اگر حکومت تشدد نہیں کر رہی تو کیا ہم انہیں مجبور کریں کہ ہمارے اوپر ڈنڈے برسائو؟ کہنے لگے کہ ہمیں اس موجودہ سیٹ آپ نے کیا دیا ہے؟ صفر۔ پختون خوا اسمبلی میں دو جیتی ہوئی سیٹیں بھی ریورس کر دی گئی تھیں۔ ہمیں کوئی فائدہ ملا ہے نہ ہی ہم اس کے خواہش مند ہیں۔ ہم تو عوامی سیاست کرکے صرف عوام ہی سے پزیرائی چاہتے ہیں۔
یہ بہرحال حقیقت ہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے اپنی امارت کے ابتدائی چند ماہ ہی میں جماعت اسلامی کو پھر سے متحرک اور عوامی سطح پر فعال بنا دیا ہے۔ دھرنے کے سٹیج سے جو عوامی نعرے لگ رہے ہیں، وہ خوش آئند ہیں۔ جماعت کے کارکن کوعام آدمی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا اور رہنا چاہیے۔ اس قسم کے دھرنے یہ ماحول بنا دیتے ہیں۔ کسی بھی دھرنے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ دھرنا دینا آسان ہے، اسے جاری رکھنا اور مسلسل لوگوں کی شمولیت یقینی بنائے رکھنا اصل چیلنج ہوتا ہے۔ حافظ صاحب کی بطور امیر یہ پہلی آزمائش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کا یہ دھرنا کیا رخ اختیار کرتا ہے اور نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں؟ ہمیں خوشی ہے کہ کسی اکیڈمک یا خالص علمی، فکری ایشو کے بجائے اس بار ایک عوامی ایشو پر بھی جماعت باہر نکلی ہے۔ ان کے لئے نیک تمنائیں۔