Saturday, 21 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Lahu Rang Falasteen, Aik Munfarid Novel

Lahu Rang Falasteen, Aik Munfarid Novel

محترمہ سلمیٰ اعوان کو پہلی بار میں نے ٹھیک اٹھائیس سال قبل اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں دیکھا تھا۔ ان کا نام اردو ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت کے رکن کے طور پر شائع ہوتا تھا۔ تحریریں بھی کبھی کبھار ڈائجسٹ میں آتی رہتیں۔ ڈاکٹر اعجازحسن قریشی اوران کے چھوٹے بھائی الطاف حسن قریشی دونوں ان کے مداح تھے۔

میں ان دنوں اردو ڈائجسٹ سے اپنے صحافی کیرئر کا آغاز کر چکا تھا۔ بہاولپور کی تحصیل احمد پورشرقیہ سے آیا نوجوان، جو زندگی میں پہلی بار لاہور آیا تھا اور جس نے بیشتر لکھاریوں کے صرف نام پڑھے تھے، کبھی ملاقات نہیں کی تھی۔ اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں بہت سے لکھاری آیا کرتے، چند ایک سے ڈاکٹر اعجاز قریشی کے دفتر میں چائے کی محفل پر ملاقات ہوجاتی، کچھ سے محسن فارانی کے کمرے میں مل لیتے۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی جو اردو ڈائجسٹ کے مدیراعلیٰ اور یکے از مالکان تھے، وہ گیارہ بجے اپنے کمرے میں اہتمام سے بنی سیپریٹ چائے پیا کرتے، گپ شپ کرنا انہیں پسند تھی، ہمیں بھی بلا لیتے اور چائے کے ساتھ اپنے لو کیلوری وِیٹ بسکٹ بھی کھلاتے۔ خاکسار نے وہ بدمزہ بسکٹ وہاں کھانے شروع کئے، حتیٰ کہ ایسا ٹیسٹ ڈویلپ ہوا کہ پھر ایک کے بعد دوسرے اور تیسرے کی طرف نظر رہتی۔

اردو ڈائجسٹ کے نائب مدیر محسن فارانی کے کمرے میں سلمیٰ اعوان اپنے مسودے دینے آیا کرتیں۔ فارانی صاحب کے میز اور ان کے دائیں بائیں مسودوں، کتابوں کے عظیم الشان ڈھیر رکھے ہوتے اور درمیان میں دھان پان فارانی صاحب دنیاجہاں سے محو ہو کر سرخ پنسل سے مسودوں کی ایڈیٹنگ میں جتے ہوتے۔ مہمان آتے تو فارانی صاحب چونک کر سر ہٹاتے، شناسا چہرے کو دیکھ کر مسکراتے اور پھر کچھ گپ شپ بھی کرتے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ سلمیٰ اعوان سے پہلی بار فارانی صاحب کے کمرے میں ملاقات ہوئی یا ڈاکٹر صاحب کے چائے کی محفل میں۔ بہرحال یہ پتہ چلا کہ معروف لکھاری ہیں، مشرقی پاکستان پر ایک منفرد ناول"تنہا" لکھا ہے جو اردو میں تب تک شائداس موضوع پر واحد ناول تھا۔ انہیں مشرقی پاکستان کے ہنگامی دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھنے کاموقعہ ملا تھا تو ان کا مشاہدہ براہ راست تھا۔ انہی دنوں ان کے سفرنامے بھی کتابی صورت میں چھپنے لگے۔ سلمیٰ اعوان کا گلگت ہنزہ پر لکھا سفرنامہ میں فارانی صاحب سے مستعار لے کر ہاسٹل لے گیا تھا اور شائد ایک ہی رات میں پڑھ ڈالا تھا۔ نثر تو ان کی خوب تھی ہی، مگر یہ تاثر بھی بنا کہ یہ ڈاڈھی خاتون ہیں، دلیر، دبنگ اورپراعتماد۔

وقت گزرتا گیا، ہم اردو ڈائجسٹ کے مختصر سے تالاب سے روزناموں کے سمندر میں آ گئے۔ سلمیٰ اعوان کے سفر بھی ملک سے باہر نکل کر بیرون ملک تک پھیل گئے۔ نجانے کہاں کہاں کی انہوں نے سیر کی اور کیا کیا دلچسپ تحریریں لکھتی رہیں۔ خواتین دوستوں کو لے کر روس بھی ہوآئیں۔ ان کے داماد چین تعینات ہوئے تو چین گئیں اور ایک بہت ہی دلچسپ سفرنامہ لکھ ڈالا۔ استنبول گئیں، پھر مصر کا سفر کیا، سری لنکا، اٹلی، شام اور پھر عراق بھی گئیں۔ عرب دنیا سے ان کی دلچسپی انہیں عرب شاعری کے مطالعے کی طرف لے گئی۔ جدید عرب شاعروں پر مضامین بھی چھپنے لگے، محمود درویش، نزار قبانی اور نجانے کن کن پر انہوں نے لکھا۔ وہ مضامین بھی شائد کتابی صورت میں چھپ گئے ہیں۔

سلمیٰ اعوان کا قلمی سفر تو اب چار عشروں سے زائد ہوچکا ہے، دو درجن کے لگ بھگ کتب انہوں نے لکھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت پاکستان کی صف اول کی مصنفہ، ادیبہ ہیں۔ میں انہیں اردو کا اہم سفرنامہ نگار سمجھتا ہوں۔ اس لئے کہ مرد سفرنامہ نگار خواہ جتنے ہی جتن کر لیں، جو باریک بیں اور مشاہداتی قوت عورت کی آنکھ میں ہے، اس کا کوئی متبادل نہیں۔ عورت کو قدرت نے منظر کو تفصیل اور جذئیات میں دیکھنے کی صلاحیت دی ہے، شائد اس لئے کہ وہ ماں ہے۔ وہ بچے پر ایک نظر ڈالے گی تو وہ کچھ دیکھ لے گی جو اس کے پاس کئی گھنٹوں سے بیٹھا اس کا باپ یا دیگر مرد عزیز نہیں دیکھ پائیں گے۔ سلمیٰ اعوان کے سفرنامے اسی لئے بہت دلچسپ اور جامع ہیں۔

وہ مگر صرف سفرنامہ نگار نہیں، انہوں نے بہت عمدہ افسانے لکھے ہیں اور ناول بھی۔ مشرقی پاکستان پر ان کے ایک ناول کا پہلے تذکرہ آ چکا ہے۔ ان کے چھ ناول "تنہا، ثاقب، گھروندا ایک ریت کا، زرغونہ، شیبہ، لہورنگ فلسطین"اور پانچ افسانوی مجموعے "کہانیاں دنیا کی، بیچ بچولن، خوابوں کے رنگ، برف میں دھنسی عورت کچھ کہتی ہے، زرا سنو تو افسانہ میرا"جبکہ گیارہ سفرناموں کے مجموعے اور تین کالموں اور مضامین ودیگر تحریروں کی کتب شائع ہوئی ہیں۔ یہ پچیس چھبیس کتابیں ہیں۔ ایک خاتون جس نے اپنا گھر بھی سنبھالا، فری لانس رائٹنگ کی، ایک سکول کی پرنسپل رہیں اور پھر اپنا سکول بنایا اور اسے اچھے سے چلایا اور ساتھ اتنی کتابیں بھی لکھ دیں۔ یہ سب بے پناہ عزم اور محنت کا نتیجہ ہے اور ساتھ قدرت کی مہربانی بھی، جس نے ان کے معمولات میں برکت ڈال دی۔

گزشتہ روز سے میں ان کا تازہ ناول" لہو رنگ فلسطین-شاخ زیتون سے لپٹی فلسطینی واسرائیلی لڑکی " پڑھ رہا ہوں۔ یہ ایک عجیب وغریب ناول ہے، پڑھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ فلسطین کی پورے ایک صدی کی تاریخ، کلچر، سیاست، مقامی غیر مقامی تصادم اور پھر وہاں رچائے گئے خونی صہیونی کھیل کو جس کمال انداز سے سلمی اعوان نے اپنے تین سو صفحات کے اس ناول میں سمویا ہے، وہ شاندار تجربہ ہے۔ خاکسارعالمی ادب اور اردو ادب کا ایک طالب علم ہے، مختلف انداز کے ناول، ناولٹ، افسانے پڑھ رکھے ہیں مگر اس ناول نے متاثر کیا ہے۔ فلسطین کے موضوع پر بہت کچھ چھپا ہے، شاعری، نثر میں بھی۔ زیادہ تر تحریریں مگر اشتعال اور دھواں دھار جذبات سے گندھی ہوتی ہیں۔ سلمیٰ اعوان کا کام بہت مختلف، منفرد اور اچھوتا ہے۔ دھیمے سروں میں بہتی ہوئی ندی جیسا جس کا سفر آپ کو خطے کے مختلف رنگ دکھاتا ہے۔ ہر قسم کے کردار، وہاں کا کلچر، شادیاں، رسومات، کھانے، قہوے کی محفلیں، سحرانگیز عرب شاعری اور پھر وہ سب جو وہاں برسوں، عشروں سے ہو رہا ہے، نہتے فلسطینیوں کا بہتا خون ناحق۔

اس ناول کی ایک اور خوبی ہے کہ اس میں صرف مسلمان فلسطینی کردار نہیں بلکہ اس میں غیر مسلم عرب بھی پوری طرح موجود ہیں۔ عرب اسرائیلی کردار، ایسے بھی جو صہیونی ریاست کے مخالف تھے اور وہ مقامی فلسطینی عربوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ یہ ایک بالکل ہی منفرد زاویہ ہے۔ اس ناول میں عثمانی سلطنت کے آخری برسوں میں فلسطینیوں اور عرب دنیا میں ترک بادشاہت کے خلاف امنڈتے جذبات، شکوے، شکایات کی زیریں لہر بھی محسوس ہوتی ہے۔

مجھے یہ رخ بھی مختلف اور اہم لگا۔ ہم پاکستانی یا کہہ لیں ہندوستان کے مسلمان ہمیشہ عثمانی سلطنت یعنی خلافت کے خاتمے کو ایک خاص انداز اور سازش کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ عربوں کی گوروں کے ساتھ مل کر عثمانیوں کے خلاف بغاوت اور پھر پہلی جنگ عظیم کے بعد ترک سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونا بھی ایک خاص تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ ناول ہمیں اس ایشو کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کراتا ہے۔ بیت المقدس(یروشلم)کے ایک مئیر یوسف ضیا کے کردار اور ان کے دوستوں اور اس زمانے کی بحثوں سے پتہ چلتا ہے کہ آخری ترک خلیفہ عرب نوجوانوں کے ذہن اور مزاج کو سمجھنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ وہ بے خبر تھے کہ جمہوریت، آزادی رائے وغیرہ کی لہریں یورپ سے پڑھے لکھے عربوں میں بھی سرائیت کر چکی ہیں۔ جو کام شائد ان آخری خلفا کو سلیقے اور اچھے انداز میں کر لینا چاہیے تھا، وہ ان سے نہیں ہوا اور پھر وقت نے انہیں مہلت ہی نہیں دی۔

یوسف ضیا، ان کے صاحبزادے موسیٰ اور پھر پوتے منصور کا کردار اور ادھر عرب یہودی قراسو آفندی، اس کی فیملی اور پھر اس کی تیسری نسل میں یائل کا شوخ وشنگ کردار بھلا لگا۔ سلمیٰ اعوان نے ان کرداروں کی بنت کے ساتھ اس خطے کی پوری ایک صدی کو زندہ کر دیا۔ قہوہ خانوں میں بپا ادبی علمی مجلسیں، گھروں میں خوش باش محفلیں، فلسطینی کھانوں کی ڈشز، گھریلوتقریبات میں موسیقی، اشعار وغیرہ۔ یہ سب بہت خوبصورت لگا۔

ناول کے ابتدائی ابواب میں اسرائیلی ریاست کے خالق اور مصور تھیوڈور ہرزل کا تذکرہ آتا ہے۔ قراسو آفندی اس کا پیغام لے کر سلطان عبدالحمید کو ملنے جاتا ہے۔ یہ منظر ترک ڈراموں میں بھی دکھایا جاتا ہے۔ یہ ناول دراصل پورے عرب اسرائیل تنازع کو زیادہ گہرائی اور وسعت کے ساتھ دکھاتا ہے۔ پڑھ کر بعض ایسے سوالات کے جواب بھی مل جاتے ہیں جو شائد اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے برسوں سے لئے بیٹھے ہوں۔ اس ناول کو معروف اشاعتی ادارے بک کارنر جہلم نے خوبصورت انداز سے شائع کیا ہے۔ ضخامت اور چھپائی کے لحاظ سے قیمت بھی مناسب ہے۔