28 نومبر کو ایکسپریس کے اسی صفحے پر چھپنے والے اپنے کالم "اچھا دوستو خدا حافظ" میں جب ہم سب کے عزیز عبدالقادر حسن یہ سطریں لکھ رہے تھے کون کہہ سکتا تھا کہ صرف دو دن بعد وہ خود بھی اُن دوستوں میں شامل ہو جائیں گے جنھیں خدا حافظ کہا جا رہا ہے۔
موت ایک اَٹل حقیقت ہے یہ ہم سب جانتے ہیں، یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ ہر آنے والا دن ہماری زندگیوں سے ایک دن کم کرتا چلا جا رہا ہے اور بقول انورؔ مسعود یہ شعور بھی رکھتے ہیں کہ:
وہ بھی مریں گے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے
لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ کسی بڑے مقصد کے لیے انجام کو جانتے بوجھتے ہوئے قبول کرنے والوں کے سوا کوئی بھی اس حقیقت کو خوشدلی سے قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا اور کم و بیش یہی واقعہ اُن لوگوں کو رخصت کرتے سمے پیش آتا ہے جو آپ کے دل سے قریب ہوں۔
عبدالقادر حسن کا صحافتی کیریئر نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے اور اپنے موجودہ "غیر سیاسی کالم" سے قبل بھی وہ بہت سے عنوانات کے تحت کالم نگاری کر چکے ہیں لیکن اُن کی شخصیت اور صلاحیت پر بات کرنے سے قبل میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں آپ کو اُن کی اپنی وفات سے دو دن قبل لکھے گئے تعزیتی کالم کے کچھ حصے سناؤں کہ ان کی معرفت خود انھیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
"جو لوگ چلے جاتے ہیں اُن کے لیے ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتا کہ ہم بچشمِ نم اُن کے لیے دعائے مغفرت کریں انھیں اچھے الفاظ میں یاد کریں اور اُن سے وابستہ یادوں کو تازہ کریں۔ گزشتہ دنوں میرے چند ایسے کرم فرما ہمیں بھٹکتا چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے پہلے میرے مہربان اُردو ڈائجسٹ کے بانی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی چلے گئے اُن کے پیچھے ہمارے اسلام آبادی شاہ جی سید سعود ساحر روانہ ہوئے۔ ان دونوں کا غم ابھی تازہ تھا کہ چوہدری انور عزیز چلے گئے۔ صحافت کی زندگی میں ان اصحاب سے میرا خاص تعلق رہا۔
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اُردو ڈائجسٹ کے بانی ایڈیٹر بھی تھے اور اُن کی رہنمائی میں اخبار نویسوں کی جو کھیپ تیار ہوئی وہ آج تک صحافت پر حکمرانی کر رہی ہے ……جب کبھی ایمان ڈولنے لگتا ہے تو یہ لکیریں دیوار بن کر سامنے آ جاتی ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں ہم آج کے صحافی رئیس ہیں اور اپنی حیثیت میں زندہ رہ سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایمان سلامت نہیں رہے ہماری خوش حالی ہمارے ایمان کو کھا گئی۔
شائد یہی وجہ ہے کہ ہماری تحریروں میں برکت نہیں رہی حرفِ مطبوعہ کی عزت باقی نہیں رہی اور اس کے ساتھ ہماری عزت بھی، مجھے تعزیتیں لکھنا نہیں آتیں شائد اس لیے کہ زندوں کی تعزیت اور عزاداری سے فرصت ملے تو کوئی اس دنیا سے آنے جانے والوں کو یاد کرے اور آنسو بہائے مگر بعض ایسے لوگ بھی ہم سے رخصت ہو جاتے ہیں کہ جن کے اُٹھ جانے کے بعد ہم اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں وہ اپنے پیچھے محاورتاً اور رسماً نہیں واقعتاً خلاء چھوڑ جاتے ہیں ایک ہولناک خلا جس میں ڈر لگتا ہے تنہائی اور بڑھ جاتی ہے۔
انسان اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرنے لگتا ہے کسی ایسے آدمی کے چلے جانے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں قحط الرجال کس قدر خوفناک ہوتا جا رہا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو نعم البدل سے محروم محسوس کرتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیں کچھ اچھے لوگ کوٹے میں ملے تھے اور اب ہمارا کوٹا ختم ہو گیا ہے۔ کوئی سوسائٹی روپے پیسے کی کمی سے دیوالیہ یا فقیر نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو بگڑتی ہے وہ ایسے لوگوں سے محروم ہو کر ادھوری اور فاقہ زدہ ہو جاتی ہے جو اس میں آبِ حیات بن کر زندہ رہتے ہیں اور اعلیٰ روایات کے خزانے لُٹاتے رہے اور یہ آبِ حیات اور یہ خزانے اُن کے آنکھیں بند کرتے ہی خشک اور خالی ہو گئے"
اس معیار کے پسِ منظرمیں دیکھا جائے تو عبدالقادر حسن خود بھی اس صف کے آدمی تھے ان سے تعلقِ خاطر قائم ہونے کی بنیادی وجہ تو احمد ندیم قاسمی مرحوم تھے کہ نہ صرف دونوں کا آبائی علاقہ ایک تھا بلکہ اُن میں محبت اور احترام کا وہ رشتہ بھی ساری عمر برقرار رہا جو کبھی ہمارے دیہاتی سماج کا طرہّ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ ایکسپریس اخبار کے اس ادارتی صفحے پر یکجا ہونے کے علاوہ میرا اُن کا ساتھ محبت اور احترام کے باوجود زیادہ تر تعلق رسمی نوعیت کا رہا کہ میں تیس سال مسلسل کالم لکھنے کے باوجود اپنی دیگر مشغولیات کے باعث صحافی برادری کا باقاعدہ حصہ نہ بن سکا جب کہ وہ اس کے پرچم برداروں میں سے تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ دس پندرہ برس میں اُن سے زیادہ اُن کے فرزندِ ارجمند اطہر حسن سے ملاقات رہی کہ وہ پی آئی اے کے شعبہ تعلقات عامہ کا سینئر افسر ہے ا ور اس بہانے اُس سے ملاقات کا موقع نکلتا رہتا ہے۔ عبدالقادرحسن کلاسیکی انداز میں لکھنے والے کالم نگار تھے یعنی اُن کے کالم میں نیم فکاہیہ انداز میں سیاست، ادب، معاشرتی اقدار اور ملکی اور بین الاقوامی خبروں کو موضوع بنایا جاتا تھا، ایک حد سے زیادہ تیزی نہ اُن کے مزاج میں تھی نہ قلم میں، وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو مسکراہٹ کو صدقہ سمجھ کر ہمہ وقت اسے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اپنی تحریر میں لوگوں کی دل آزاری کے بجائے مفاہمت اور درگزر سے کام لیتے تھے۔
اس میانہ روی کی اُن کو قیمت دینا پڑی کہ آج کل کی جذباتی وابستگی اور مخالف کی دلیل کے صحیح حصے کو بھی تسلیم نہ کرنے کی روش نے بہت سے کالم نگاروں کو بھی سیاسی ورکر کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کی صلح جوئی کو ان کی کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ان کے اس آخری کالم "اچھا دوستو خدا حافظ" میں ایک ساتھ تین نامور مرحومین کا ذکر کیا گیا ہے، میرے علم میں نہیں کہ ان میں سے کورونا کسی کی رحلت کا باعث بنا یا نہیں، بوجوہ میں عبدالقادر حسن کی نماز جنازہ میں بھی شامل نہیں ہو سکا (جس کا بہت افسوس ہے) سو یہ بھی علم نہیں کہ خود عبدالقادر حسن اس سے متاثر تھے یا نہیں لیکن جس کثرت اور تیزی سے ان دنوں احباب رخصت ہو رہے ہیں وہ اپنی جگہ پر ایک خوفناک تجربہ اور احساس ہے کہ کم از کم میری ہوش میں یہ واحد موقع ہے (اور اللہ کرے آخری ہو) کہ گزشتہ کئی ماہ سے روزانہ اخبارات کے صفحات اور فیس بُک پر کسی نہ کسی ایسے شخص کی کورونا زدگی یا اس کے باعث رحلت کی خبر ملتی ہے جس کا تعلق آپ کی زندگی کے کسی نہ کسی رشتے سے ہوتا ہے، سو اپنا اور دوسروں کا خیال رکھیئے۔ آخر میں عبدالقادر حسن کے لیے مغفرت کی دعا کے ساتھ اُن کے ایک کالم سے اقتباس جو اُن کے اندازِ تحریر کا ایک خوبصورت نمونہ بھی ہے۔
"ہم یہ مانیں یا نہ مانیں یہ ایک اَٹل حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہے۔ جائز کام کروانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ ایک وقت تھا اس ملک میں رشوت چُھپ کر لی جاتی تھی اور عمومی طور پر اسے بُرا سمجھا جاتا تھا اور اگر کسی شخص کے بارے میں یہ پتہ ہوتا تھا کہ وہ راشی ہے تو اُس کے محلے دار اور رشتے دار اُس سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور وہ خاندان کی تقاریب میں بھی دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ رہتا تھا۔ شائد آپ کو یہ باتیں آج قصے کہانیاں لگیں لیکن اگر آپ ایک لمحے کے لیے اپنے ذہن کے دریچوں کو ٹٹولیے تو شاید آپ کو یہ سب باتیں یاد آ جائیں گی، دیکھیے کیسے دھیرے دھیرے پورا معاشرہ اور اُس کی اقدار سب کچھ بدل گیا اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی یا شاید ہم خبر رکھنا ہی نہیں چاہتے تھے"