برادرِ عزیز نجم الثاقب اور اس کی شاعری سے تعارف تو چار دہائیوں سے بھی پرانا ہے مگر اس کی فارن سروس سے وابستگی کے باعث وہ زیادہ تر پاکستان سے باہر اور ادبی دنیا سے فاصلے پر ہی رہا جس کی وجہ سے میری اس کی براہِ راست اور بالواسطہ ملاقاتیں ہمیشہ عدم تسلسل کا شکار رہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ رابطہ سرے سے ہی ٹوٹ گیا ہو۔
اب جو اس کی ان تمام برسوں پر محیط شاعری کو "سفر دوسری طرف" کی شکل میں ایک ساتھ پڑھنے کا موقع ملا ہے تو قدم قدم پر ایک خوشگوار حیرت سے واسطہ پڑ رہا ہے کہ وہ خوش خیال، خوش فکر اور خوش بیان تو پہلے بھی تھا مگر مختلف انسانی تہذیبوں سے براہ راست اور ہمہ گیر رابطے کی وجہ سے اس کے کلام میں کچھ ایسے محسوسات اور موضوعات بھی درآئے ہیں جو کم ازکم غزل کی حد تک نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔
اس کتاب کو منظومات کے حوالے سے پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تین حصے غزلوں پر، ایک نظموں پر اور ایک نثری نظموں پر مشتمل ہے۔ نثری نظم کی فارم کے حوالے سے چونکہ میرے کچھ تحفظات ہیں اس لیے فی الوقت میں ان سے درگزر کرتے ہوئے باقی کے چار حصوں پر ہی بات کروں گا۔
یہ اور بات ہے کہ Contant کی گہرائی اور کچھ لائنوں میں موجود قوتِ احساس کی بوقلمونی اپنی جگہ ہے مگر اس سے پہلے کہ میں اس شاعری پر کوئی تبصرہ کروں، میں چاہوں گا کہ خود نجم الثاقب کے پیش لفظ کا ایک مختصر اقتباس پیش کروں کہ جس میں اس نے سچ اور شاعری کے درمیان موجود رشتوں کو بہت ہی اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔
وہ لکھتا ہے:"پہلے میرا خیال تھا شاعری سچ بولتی ہے، اب لگتا ہے سچ شاعری میں بولتا ہے، کل کیا سوچوں گا یہ بتانا قبل ازوقت ہے، کچھ اس لیے بھی کہ روح کے نہاں خانوں میں ایک اور سوال کچھ عرصے سے دھمال ڈال رہا ہے… سچ اگر مل گیا تو کیا ہو گا؟
روزانہ بدل جاتا ہے دیوار پہ لکھا
لگتا ہے کہ دیوار کے پیچھے بھی کوئی ہے
شاعری کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ مادیت اور جمالیات کے درمیان پھیلے قلزم بسیط میں فاصلہ کم کرتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور مادیت کے زخموں پر ملامتوں کا مرحم رکھتی ہے اور ایک نامعلوم سچ کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔"
کتاب کے تقریباً شروع میں علیحدہ سے درج ایک غزلیہ شعر کے اندر موجود حمدیہ آہنگ نے بہت مزا دیا تو اس سے آغاز کرتے ہیں۔
اسے خبر ہے میں کمزور ہوں ریاضی میں
خدا کا شکر مجھے بے حساب ملتا ہے
برادرِ عزیز گلزار کی ایک مشہور نظم "میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے" یقینا آپ کے حافظے میں ہو گی۔ اب دیکھیے نجم الثاقب نے اسی مضمون کو خوبصورتی اور مہارت سے ایک بالکل نیا رنگ دے دیا ہے:
ساری عمر اٹھائے رکھا بوجھ کوئی
کھول کے دیکھا تو سامان تمہارا تھا
اور یہ عزل اگرچہ ساری کی ساری ہی تعریف کے قابل ہے مگر اس انوکھی ردیف کے یہ تین نمونے درج نہ کرنا یقینا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا In my beggining is my end لیکن نجم الثاقب نے شعر مکمل کر دیے ہیں، قصہ ختم نہیں ہونے دیا۔
موت حقیقت، عمر تماشا، قصہ ختم
بند کیا کوزے میں دریا، قصہ ختم
جب تک خواب گلاب رہے سب ٹھیک رہا
جوں ہی آنکھیں کھولیں، دیکھا، قصہ ختم
ہونے والی بات کو اِک دن ہونا ہی تھا
اک نہ اک دن ہونا ہی تھا قصہ ختم
اچھی کتابوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان میں بھرتی کا مال یا تو کم ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں اس لیے ان سے انتخاب نسبتاً مشکل ہو جاتا ہے۔ سو میں چند جستہ جستہ اشعار ہی پر اکتفا کروں گا، نظموں پر بات ادھار رہی۔
درسگاہِ ہستی کا اِک اصول یہ بھی ہے
امتحان رہتا ہے ممتحن نہیں رہتے
اپنی جگہ سے مہرے، ہٹنے لگے تھے شاید
پوری بساط ہی کو اُلٹا دیا گیا ہے
سامنے درج عبارت نہیں دیکھی جاتی
بادشاہوں سے ہزیمت نہیں دیکھی جاتی
صاف دِکھتا ہے آسماں پہ کوئی
جب دُعا ہاتھ سے نکلتی ہے
جنھیں کہانیاں لکھنی تھیں سچ کے صفحوں پر
وہ داستانوں کے کردار بنتے جاتے ہیں
اور اب آخر میں اس غزل کے کچھ شعر جس کے مطلعے سے اس کتاب کا نام لیا گیا ہے کہ اس میں نجم الثاقب کی دنیا، اس کی شخصیت اور فکر ایک طرح سے یک جان ہو گئے ہیں:
اپنا شجر یہاں ہے ثمر دوسری طرف
کرنا پڑے گا ہم کو سفر دوسری طرف
اس ناشناس درد کے دریا میں غالباً
ہوتا ہے اک کنارا، مگر دوسری طرف
کچھ اور انتظار کریں ضبط کے گلاب
پہنچی ابھی نہیں ہے خبر دوسری طرف
ہم اِس طرف کے لوگ تھے لیکن یہ دیکھیے
کرنی پڑی ہے عمر بسر، دوسری طرف