اگلے وقتوں میں کلاسیکی شعرا کے یہاں بہار کی آمد کا استقبال بہت مختلف اندازمیں کیا جاتا تھا کہ پُھولوں کے رنگ اور بادِ صبا کا خرام دُکھے دلوں میں یادوں کے جلتے دیوں کی لو مزید بلند کر دیتا تھا اور میرؔ صاحب گھبرا کر کہہ اُٹھتے تھے۔
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
اور کبھی وہ بہار کا رشتہ اپنے درد کے ساتھ یوں بھی جوڑتے تھے کہ
اب کے جنوں میں فاصلہ شائد نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
مزے کی بات یہ ہے کہ موسم بہار کا یہ کردار عالمی سطح پربھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، بیسویں صدی کے سب سے بڑے انگریز شاعر ٹی ایس ایلیٹ اس کا ذکر کچھ اس طرح سے کرتے ہیں
April is the Cruallest month
Breeding lilacs out of dead land
mixing desire and memory۔
لیکن آج کل اس کی جو شکل عمومی طور پر معروف اور مقبول ہے اسے جشنِ بہاراں کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ تقریباً نصف صدی سے وقفوں کے بعد ہی سہی لیکن اس موسم کا استقبال سرکاری اور عوامی سطح پر بھی ایک خوش کن اور مثبت اندازمیں کیا جاتاہے۔
اتفاق سے اس برس سردی کے خاتمے کے بعد ایک دم ہی گرمی شروع ہوگئی ہے ا ور درمیان کا مختصر بہار کا موسم صرف جشنِ بہاراں کی تقریبات تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے جن میں ہارس اینڈ کیٹل شوز اور ادبی تقریبات بالخصوص مشاعروں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، ادبی تقریبات کی بہتات کی دو اور وجہیں کووڈ کا خاتمہ اور رمضان کی آمد بھی ہوسکتی ہیں کہ اپریل کے آغازمیں رمضان کا آغاز ہو رہا ہے اور دو سال بعد لوگوں کو مجمعے کی شکل میں کھل کر شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔
اس سلسلے کا آغاز 6مارچ کو الحمرا میں فیض میلے کے مشاعرے سے ہوا، ایک دن کے وقفے کے بعد 8مارچ کو ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں ایک خوب صورت محفلِ مشاعرہ منعقد ہوئی جس میں وائس چانسلر کنول امین جو نئی نسل کے محبوب گلوکار علی ظفر کی والدہ بھی ہیں ہماری میزبان تھیں، طالبات کی کثرت اور ذوق وشوق دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اب ہماری نسل نو زیادہ تر شاعری سے رابطہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بحال رکھے ہوئے ہے جو اُن کے ذوق کی اصلاح سے زیادہ اُس کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔
کرنل (ریٹائرڈ) شجاعت قریشی نے (جو میرے داماد ناصر منیف قریشی کے بڑے بھائی بھی ہیں) بہت سلیقے سے اس پروگرام کی پلاننگ کی تھی، سو شاعر اور سامعین دونوں ہی جی بھر کر لطف اندوز ہوئے۔ 9مارچ کی شام میری مادرِ علمی اسلامیہ کالج سول لائنز میں ایک بھر پور مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا جو ذاتی طور پر میرے لیے ایک بے حدخوش گوار تجربہ تھا کہ اس کالج کے درودیوار میں میرا وہ زمانہ گزرا ہے جس میں نہ صرف میری ادبی تربیت ہوئی بلکہ مجھے یہ اعتماد بھی حاصل ہوا کہ میرا مستقبل شعرو ادب ہی سے وابستہ ہے۔
اس مشاعرے میں اسٹیج پر نشست کے دوران مجھے کئی بار یوں محسوس ہوا کہ میں نصف صدی قبل کے اس "شمعِ تاثیر " مشاعرے کے اسٹیج پر ہوں جس کا اہتمام مجھے بزمِ فروغ اُردو کے جنرلِ سیکریٹری ہونے کے حوالے سے کرنے کا موقع ملا تھا۔ اگلے روز یعنی 10مارچ کو منصور آفاق نے حکومتِ پنجاب کے تعاون سے مجلسِ ترقی ادب کے دفترسے ملحقہ باغ میں ایک بھر پور محفلِ مشاعرہ ترتیب دی جس میں بہت اچھی شاعری سُننے کا موقع ملا اور کچھ وقت اس کمرے میں بھی گزرا جہاں احمد ندیم قاسمی مرحوم بیٹھا کرتے تھے اور ہر نسل کے شاعر اور ادیب اُن سے کسبِ فیض کرتے تھے۔
اس سے اگلے روزبلکہ رات والڈ سٹی کی طرف سے برادرم کامران لاشاری نے شاہی قلعہ لاہور میں ایک ایسی منفرد شعری محفل کا اہتمام کیا جس کے دوران اردگرد کے ماحول کی وجہ سے یوں لگا جیسے ہم سچ مچ گزرے وقت میں سانس لے رہے ہیں۔
12مارچ کو پھر، نئی نسل کے ساتھ مکالمے کا موقع ملا اس مشاعرے کا انتظام گورنمنٹ اسلامیہ کالج کینٹ کی پرنسپل نسرین آفتاب نے کیا تھا اور جو کووڈ کی وجہ سے تقریباً دو سال کے وقفے کے بعد ظہور پذیر ہوئی مگر لطف کی بات یہ ہے کہ آغاز سے اختتام تک اس محفل میں جس خوش سلیقگی، مہمان نوازی، شعرا کے احترام ا ور نظم و ضبط کا اظہار اور اہتمام کیا گیا جس نے نہ صرف گزشتہ محفل کی یاد تازہ کردی بلکہ خوش گوار احساس کے بہت سے نئے در بھی وا کردیے۔
13مارچ کا پورا دن تین مسلسل تقریبات میں بٹا ہوا تھا، دوپہر کو میری نواسی زیبندہ عاقب کی نیم منگنی نما ایک تین براعظموں پر پھیلی ہوئی خوبصورت تقریب تھی جس کا مقصد اس بات کا اعلان اور اظہار کرنا تھا کہ میری بیٹی روشین نے اپنی بچپن کی سہیلی کنول رفیع کے ساتھ ایک اور رشتے کا آغاز کیا ہے اور وہ یہ کہ کنول کا بیٹا دانیال اور روشین کی بیٹی زیبندہ انشاء اللہ شادی کے رشتے میں بندھ کر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ دونوں خاندانوں کے لیے بھی خوشی اور محبت کی ایک نئی داستان رقم کریں گے۔
سہ پہر کو فرحت پروین نے بینا گوئندی کی نئی کتاب "بصدِاحترام"کے حوالے سے ایک محفل کا اہتمام کیا جو بہت پُرلطف رہی اور اس بات کا خصوصیت سے ذکر ہوا کہ ہمارے معاشرے اور بالخصوص ریاست میں باہمی احترام تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے اور بینا کی کتاب کا یہ عنوان ہم سب کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
14مارچ کو ریس کورس پارک لاہور میں PHA کی طرف سے ایک بہاریہ مشاعرے کا اہتمام تھا مشاعرے کے بعد شاعروں کو کھانے اور گھمانے کے لیے پارک میں لگے میلے کی پُرلطف سیر کرائی گئی اور یوں بہاریہ مشاعروں کا یہ سلسلہ لاہور کی حد تک مکمل ہوا۔ اب 19اور 22 مارچ کو کراچی میں اسی روایت کے تسلسل میں دو مشاعرے ہوں گے جن کی روداد انشاء اللہ اگلے کسی کالم میں۔