یہ غالباً 1992 کی بات ہے میں پُونہ کے گن پتی فیسٹیول میں میں شامل ایک مشاعرے میں شرکت کے بعد گلزار بھائی کے اصرار پر ممبئی میں رُکا تھا جسے اُن دنوں ابھی بمبئی ہی کہا جاتا تھا۔
راجندر ملہوترا کے شا مِ بہار ٹرسٹ انبالہ کے بعد یہ میرا بھارت کا دوسرا دورہ تھا اور ابھی تک جتنے غیرمسلم لوگ ملے تھے سب ہی بہت مہمان نواز اور بظاہر اُن تعصبات سے پاک تھے جن کا ذکر میڈیا اور تاریخ کی کتابوں میں کیا جاتا تھا، توقع تھی کہ تقسیم کے وقت جو لوگ پاکستانی علاقوں سے ہجرت کر کے آئے وہ بوجوہ بہت زیادہ ناراض ہوں گے کہ فسادات کا نقصان تو دونوں طرف ہوا تھا مگر میری حیرت کی حد نہ رہی جب سینئر اور بزرگ فلمساز بی آر چوپڑہ نے لاہور کی اُن گلیوں کا ذکر جہاں اُن کا بچپن اور جوانی گزری تھی ایسے اشتیاق، محبت اور تکرار کے ساتھ کیا اور اپنے چالیس سال سے بچھڑے ہوئے دوستوں کو آنسوئوں اور رُندھے ہوئے گلے سے ایسی محبت سے یاد کیا جیسے کوئی کل کی بات ہو۔
انھوں نے بتایا کہ اُن کے زیادہ تر دوست مسلمان تھے اور وہ لوگ مذہب اور دھرم کی تفریق سے اوپر اُٹھ کر ایسے پیار اور محبت سے رہتے تھے جیسے سب ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار اداکار دیو آنند کے ڈائریکٹر بھائی چیتن آنند اور اُن تمام لوگوں نے کیا جن سے اُن دونوں سفروں کے دوران ملنے اور بات کرنے کا موقع ملا۔ دوسری طرف وہ اخباری اطلاعات تھیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ بٹوارے کے ہنگام میں اور اُس کے بعد بھارت میں رہ جانے و الے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اُن کا سلسلہ نہ صرف بہت طویل اور مسلسل ہے بلکہ ہندوؤں کے ایک متعصب گروہ نے بھارتی مسلمانوں کو تقریباً غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔
ایک تو وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت یوں بھی معاشی حوالوں سے معاشرے کے نچلے اور غریب طبقوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسرے یہ کہ جہاں کہیں مسلمان اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے وہاں خاص طور پر ایسے فسادات کرائے جاتے ہیں جن سے ان کی ترقی کی رفتار رُک جائے اور انھیں واپس غربت اور جہالت کے اُس گڑھے میں دھکیل دیا جائے کہ وہ قومی ترقی کی دوڑ سے باہر ہوکر ایک کونے میں لگنے پر مجبور ہو جائیں۔
اس صورتحال کی اصل حقیقت کھلنے میں ابھی شائد کچھ اور وقت لگتا کہ ہمارا واسطہ زیادہ ادب اور شعر سے وابستہ لوگوں سے پڑتا تھا جہاں صورتِ حال اگر بہتر نہیں تو قدرے مختلف ضرور تھی اور قائداعظم کی یہ بات شائد کبھی خدشے کی حد سے نکل کر حقیقت کی شکل میں نظر نہ آتی اگر اسی مقامِ بمبئی کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش نہ آتا جس نے آنکھوں پر پڑے ہوئے وہ بہت سے پردے ہٹا دیے جو اُن کھڑکیوں کی طرف کھلتے تھے جو بھارتی مسلمانوں کے اُن مسائل کی آئینہ دار تھیں، جو باہری یا سرسری ملاقاتوں کی وجہ سے ہمیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔
تو ہُوا یوں کہ چیتن آنندنے میرے کچھ ٹی وی سیریل دیکھ رکھے تھے اور خاص طور پر وہ ڈرامہ سیریل "رات" سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے گلزار کے ذریعے مجھے اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی تا کہ اس موضوع پر بات کو آگے بڑھا یا جا سکے۔ کھانے میں شعر و ادب اور فلم انڈسٹری سے متعلق پندرہ بیس اور لوگ بھی موجود تھے اور بڑے دوستانہ ماحول میں باتیں ہو رہی تھیں۔ انڈین ہیر رانجھا میں جس خاتون نے ہیر کا رول کیا تھا وہ ان دنوں چیتن آنندکے ساتھ اُن کے دوست کی حیثیت میں رہ رہی تھیں (بعد میں پتہ چلا کہ انھیں قتل کر دیا گیا ہے اور ان کے قاتلوں میں چیتن آنندکی پہلی بیوی سے ہونے والے بچوں کا ہاتھ ہے) میزبان کے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔
اچانک دروازہ کُھلا اور انھوں نے ایک صاحب کو میرے سامنے کی کرسی پر بٹھاتے ہوئے بتایا کہ یہ مسٹر فلاں ہیں، مسلمان ہیں اور بمبئی بلٹز اخبارکے بڑے مشہور اور کاٹ دار قلم کے بعد وہ قدرے بے نیازی سے بیٹھ تو گئے مگر اُن کی باڈی لینگوئج اور خمار زدہ آنکھوں سے معلوم یہی ہو رہا تھا کہ وہ اس وقت عالمِ سرور میں ہیں۔ یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر کچھ دیر کے بعد اچانک بغیر کسی تمہید کے انھوں نے پاکستان پر گولہ باری شروع کر دی کہ "یہ کیا ملک بنایا ہے آپ نے… نہ یہ چل رہا ہے اور نہ چلے گا کیونکہ یہ بنا ہی غلط ہے اور آپ کو کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ ا چھے بھلے ملک کے دو ٹکڑے کر دو، نہ خود آرام سے بیٹھو اور نہ کسی کو بیٹھنے دو۔ بہت بے وقوفی کی ہے آپ لوگوں نے!،
یہ جملہ اس قدر اچانک، غیرمتوقع اور آدابِ محفل کے خلاف تھا کہ چند لمحے تو مجھ سمیت کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے! میں نے بات کو ہنسی میں ٹالنے کی کوشش کی مگر اُن کی جارحیت بڑھتی ہی چلی گئی مگر اس سے پہلے کہ میں بھی اُن کی زبان اختیار کرتا، میزبان خاتون نے صورت حال کو سمجھ لیا اور ان صاحب کے کانوں میں کوئی بات کر کے انھیں تقریباً زبردستی وہاں سے اٹھا کر لے گئیں۔
کچھ دیر ماحول میں بدمزگی کا تاثر رہا مگر پھر آہستہ آہستہ پہلے کی سی خوش مزاجی واپس آگئی۔ گلوکار محمد رفیع صاحب کا بیٹا بھی اس محفل میں موجود تھا۔ اُس نے کچھ گانے گائے، کچھ شعر و شاعری کا دور چلا اور پھر کھانا آ گیا اور ڈھائی گھنٹے کی ملاقات کے بعد جب اُٹھنے کا وقت آیا تو وہ میزبان خاتون میرے پاس آئیں اور آہستہ سے بولیں کہ he wants to opologise. اُس وقت تک میں ساری بات بھول چکا تھا، میرے استفسار پر اس بی بی نے بتایا کہ اس کا اشارا انھی "ناراض" صاحب کی طرف تھا۔ میں نے کہا وہ تو چلا گیا تھا! اُس نے بتایا کہ وہ گیا نہیں تھا بلکہ وہ اُسے ایک ساتھ والے کمرے میں لے گئی تھیں اور اُن کا منہ وغیرہ دھو دھلا کر انھیں بتایا تھا کہ وہ کس بدتہذیبی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اب ہوش میں آنے کے بعد وہ معافی مانگنا چاہ رہا ہے۔
میں نے بہت کہا کہ اگر اُس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو یہ کافی ہے مگر اُن کا اصرار جاری رہا۔ قصہ مختصر کہ انھوں نے معافی مانگ کر ہی چھوڑی۔ چلتے چلتے میں نے یونہی بات کی کہ "یہ سب لوگ آپ کی ذہانت کے معترف تھے اور آپ کو یہ بھی پتہ تھا کہ میں کوئی سیاسی لیڈر یا حکومتی نمایندہ نہیں صرف آپ کی طرح کا ایک لکھاری ہوں تو پھر آپ نے کیوں ایسی باتیں کر کے سب کو پریشان کیا؟
میری اس بات پر کچھ دیر وہ صاحب خالی خالی نظروں سے مجھے گھورتے رہے پھر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے کمرے کے ایک کونے کی طرف لے جاتے ہوئے بولے۔
"آپ کو نہیں پتہ امجد صاحب! اس ملک میں مسلمان نام کے ساتھ ترقی کرنے اور کسی اچھے عہدے تک پہنچنے کے لیے آپ کو ہندو سے زیادہ ہندو بن کر دکھانا پڑتا ہے؟ اُس وقت شائد یہ بات پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئی تھی، نریندر مودی کا شکریہ کہ اب بات پوری دنیا کی سمجھ میں آ رہی ہے۔