"چراغ زار" اختر عثمان کا تازہ تر شعری مجموعہ ہے جو اُن کے مطالعے کی وسعت، شعری روایت پر گہری نظر اور تخلیقی صلاحیت کا ایک غیر معمولی اظہار ہے کہ دورِ حاضر میں بہت کم شعرا ان اوصاف سے اس قدر اعلیٰ سطح پر متصف ہیں اور غالباً اپنی نسل میں تو اُن کا کوئی ثانی ہی نہیں کہ وہ فارسی اور انگریزی میں بھی رواں ہونے کے ساتھ ساتھ کئی اور زبانوں کا بھی معقول علم رکھتے ہیں اور قدرے غور سے دیکھنے پر اُن کی شاعری میں بھی اس کی جھلک لسانی تجربات اور نت نئے استعارات کے استعمال میں دکھائی دیتی ہے دیکھا جائے تو یہ کام انوکھا بھی ہے اور مشکل بھی کہ غیر معروف الفاظ یا کم معروف قافیے چونکانے کے ساتھ ساتھ قدرے سہل طلب قارئین کے لیے ایک امتحان کی سی صورتِ حال بھی پیدا کردیتے ہیں کہ اُن کا علمی پس منظر عام طور پر آسانی سے ان کے ساتھ نہیں چل پاتا، اختر عثمان کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ وہ لفظوں کے انتخاب امتزاج اور انداز کی مدد سے غزل کے اشعار میں ایک نظم کا سا احساس بھی تخلیق کرتے جاتے ہیں، کتاب کے اندرونی ٹائٹل پر درج اُن کی یہ غزل اُسی علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔
حُسنِ خوابیدہ، چُنریا دریا
ایک ہی موج ہے دریا دریا
آسمان سے اُترتی ہے پری
اور بھرتا ہے گگریا دریا
اب کے بھی بچ گئے کہسار نشیں
لے گیا میری نگریا دریا
شورِ وحشت میں کناروں کے لیے
ایک جیسے ہیں یہ سریا دریا
کون بیلے میں چُھپے ہیں اخترؔ
بانسری، لہر، گڈریا دریا
اس کے ساتھ ساتھ اُن کی غزل میں محسوسات کی دل فریب اور فکر انگیز لہر بھی ہمہ وقت شکلیں بدل بدل کرسامنے آتی رہتی ہے، اُن کے مصرعے بہت چُست اور خوش نما ہوتے ہیں اور وہ بہت ہنر مندی سے کہیں کہیں ان میں ابہام کا تڑکا سابھی لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ پہلی نظر اور پڑھت میں پوری طرح واضح نہیں ہوتے لیکن جب کُھلتے ہیں تو قاری کے لیے ان کی گرفت سے نکلنا مشکل ہوجاتاہے مثال کے طور پر یہ چند اشعار دیکھیے اور یاد رکھیے کہ یہ ساری کتاب اسی حسنِ فن سے بھری پڑی ہے۔
سُخن کی تاب نہیں بس اشارا کافی ہے
پلک پہ ٹھہرا ہوا اک ستارا کافی ہے
جو سُود خور ہیں بہتر ہے اب کنارا کریں
یہ کارِ عشق ہے اس میں خسارا کافی ہے
وفورِ کرب میں جانے وہ کون منزل ہو
کوئی زیاں بھی نہ ہو اور ہاتھ ملتے جائیں
یہی کہ ہم سے نہیں نبھ سکی محبت میں
زوالِ عمر ہے اب اور جُھوٹ کیا بولیں
تا زیست ہنر سیکھتے ہیں لوگ جو اخترؔ
اتنا تو سنبھالے ہوئے نکلا تھا میں گھر سے
گھر جلانے کو جو آئے وہ نہیں جانتے تھے
ایک تصویر مرے گھر میں تھی اک دل میں تھی
نام و نمود کی ہوس خوب سہی پہ تابہ کے
خود میں کوئی صدا لگا، کوچہ اکتفا میں رہ
میرؔ آتے ہیں اخترِؔ شکستہ
اُٹھ ا ور ادب سے پاؤں چُھولے
ہُوا نہ ضبط بھی اور وہ بھی ہوگیا ناراض
غزل بھی ہو نہ سکی ا ور غزال سے بھی گئے
جیسے خیال و خواب تھی دہر کی آمدن شدن
جیسے کوئی جھنجھوڑ کے پھر سے سُلا گیا مجھے
نجانے کون سمے ہے وصال کا اے دوست
ہم ان دنوں تجھے دیکھے بغیر دیکھتے ہیں
اختر عثمان کی شاعری سے انتخاب کا سلسلہ کئی کالموں تک پھیل سکتاہے مگر فی الحال ہم اُسی کی بنائی ہوئی ترکیب "کوچہ اکتفا" کا سہارا لیتے ہیں اور اب کچھ باتیں اسد اعوان کے شعری مجموعے "اِک گلی شہر میں تھی" کے بارے میں۔ ایک زمانہ تھا کہ غزل دہلی اور لکھنو کے درمیان ہی گردش میں رہا کرتی تھی پھر اس میں کچھ اور بڑے ادبی مراکز کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ علاقے جنھیں ہم عرفِ عام میں مضافات کہتے ہیں وہاں سے مسلسل بہت اچھے ایسے شاعر چہرہ نمائی کر رہے ہیں (بوجوہ ان کا کینوس عام طور پر بہت بڑا نہیں ہوتا مگر تازگی، طبع، سادگی اور خوش فکری کے اعتبار سے یہ کسی سے کم نہیں) اس وقت میرے سامنے اسد اعوان کا شعری مجموعہ "اک گلی شہر میں تھی" ہے جو اس احساس کی ایک زندہ اور تازہ تر ضامن ہے غزل کی روایت کا یہ پھیلاؤ بلاشبہ بہت مثبت اور قابلِ تحسین ہے کہ اب ادبی مراکز سے دُور اور نسبتاً گمنام شاعر بھی غزل کی مرکزی رَو میں تیزی سے شامل ہوتے جارہے ہیں مثال کے طور پر اسد اعوان کے یہ چند اشعار دیکھیے آپ یقینا میری بات سے اتفاق فرمائیں گے۔
کتنے گھر راکھ ہوئے تیرے تعصب سے مگر
تری عادت نہ گئی شعلہ بیانی والی
صرف ایک تیری نگاہوں کا چُنیدہ تو نہ تھا
میں سبھی کا تھا مجھے تُو نے خریدا تو نہ تھا
خواہشوں کا رخش اتنا برق رو ہوگا اسدؔ
ہم نے یہ سوچا نہیں تھا ہم کو اندازہ نہ تھا
توسنِ وقت کا مہمیز کریں، چلتے چلیں
اپنی رفتار ذرا تیز کریں چلتے چلیں
جو میرے سینے میں پنہاں ہے داستاں نہ کُھلے
خدا کرے کہ ترے سامنے زباں نہ کُھلے
جوشؔ صاحب کی طرح عہدِ جوانی میں اسدؔ
اپنا بھی ایک محبت پہ گزارا نہ ہوا
میں اک چراغ مرقدِ حسرت تھا اس لیے
شامِ فراقِ یار میں جلنا تو تھا مجھے
شام کے سائے جو ڈھلتے ہیں اُسے دیکھتے ہیں
جب دیے گاؤں میں جلتے ہیں اُسے دیکھتے ہیں