عارف انیس ملک کے کالم ایکسپریس کے صفحات پر نظر سے گزرتے رہتے تھے لیکن کالموں کے ہجوم اور درمیانی وقفوں کی وجہ سے ان کا تاثر خوشگوار ہونے کے باوجود دیرپا نہ ہو پایا، اب جو میں نے کتابی شکل میں ان کو پڑھا ہے تو بہت ا فسوس ہو رہا ہے کہ ایسی اچھی، بامعنی، شگفتہ اور خیال افروز تحریریں کیوں کر میری نظروں سے اتنا عرصہ تقریباً اوجھل رہیں اوراس کے ساتھ ہی ایک بار پھر اس مفروضے کی بھی نفی ہوئی کہ اخباری کالم کی عمر صرف ایک دن کی ہوتی ہے۔ اس کتاب میں شامل بعض کالم کئی کئی برس پرانے ہونے کے باوجود آج بھی اتنے ہی دلچسپ، بامعنی اور تازہ ہیں جتنے یہ اپنی تصنیف کے وقت تھے۔
عارف انیس ملک نے انگلش اور سائیکالوجی میں ماسٹرز کیے اور کچھ برس پاکستان کی سول سروس سے بھی متعلق رہے لیکن اپنے کیرئیر کے لیے انھوں نے ایک مقّرر اور مشیر ہونے کا راستہ زیادہ پسند کیا ہے۔ انھوں نے یہ کام عزیزی قیصر عباس کے ساتھ مل کر اس نوع کی کتابیں لکھنے سے شروع کیا اور اس کے بعد سرکاری افسری تج کر انگلیند چلے گئے جہاں انھوں نے ا پنے قلم اور زبان دونوں سے ایسا خوبصورت اور متاثر کن کام کیا کہ اب ان کا شمار عالمی سطح پر اپنے میدان کے اعلیٰ اور منتخب لوگوں میں ہوتا ہے لیکن زیادہ خوبصورت بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے آبائی وطن پاکستان، اس کے عوام، مسائل اور اخلاقیات سے اپنے رشتے کو نہ صرف قائم رکھا ہے بلکہ اپنے ہم وطنوں کو ایک ایسا ویژن بھی دیا ہے جس کی ہمارے یہاں عمومی طور پر شدید کمی پائی جاتی ہے ا ور وہ یہ کہ ہم یورپ اور ترقی یافتہ دنیا کی ترقی اور اُن کے معاشروں کی مضبوطی اور علم دوستی کی بنیاد کو سمجھ سکیں، یہ کام کسی احساس کمتری کے بغیر کس قدر دشوار ہے اس کا اندازہ اہلِ علم بخوبی کر سکتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان اور اہل علم و ادب کے ساتھ عام طور پر یہ معاملہ رہا ہے کہ مغرب کی چکا چوند سے اُن کی آنکھیں خیرہ تو ہوتی ہیں مگر وہ وہاں کے دانشوروں اور عام لوگوں کے اُن ذہنی روّیوں اور اندازِ فکر کو سمجھنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں جن پر یہ ساری عمارت استوار ہوئی ہے، مثال کے طور پر آپ اپنے سیاسی رہنمائوں کو ہی دیکھ لیجیے، ان میں سے کتنے ہیں جنھوں نے مغرب کی زبان کو سیکھنے اور سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے۔
میری ذاتی رائے میں قائد اعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان اور کسی حد تک حسین شہید سہروردی بھی اس منتخب صف میں جگہ پا سکتے ہیں اور ان سب کی ا یک مشترک خوبی یہ بھی ہے کہ بہت نو عمری میں انھیں مغرب میں رہنے، وہاں کی معاشرت کو سمجھنے ا ور اُن پر نکتہ نظر کی گہرائی اور وسعت کو قریب سے دیکھنے ا ور سمجھنے کا موقع ملا ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عالمی سطح پر ان چاروں کی موجودگی کو نہ صرف محسوس کیا گیا بلکہ ان کی بات کو غور اور سنجیدگی سے سنا اور سمجھا بھی گیا۔
صحافت کے حوالے سے جو چند نام اس اہلیت کے حامل رہے ہیں اُن میں تازہ تر اضافہ عارف انیس ملک کا ہے کہ ان کے کالموں میں آپ کو وہ سوچ اور گہرائی نظر آتی ہے جس کا تعلق اُن حقائق سے ہے جو عالمی سطح پر رونما ہو رہے ہیں اور جن سے متعلق کرداروں کی ذہنی ساخت کو سمجھنا اور اس کے بعد اُن کا اپنے ملک اور تیسری دنیا سے قائم کرنا اپنی جگہ پر ایک مشکل عمل ہے اور اگر آپ اس عمل کو سمجھنے کے لیے ذاتی سطح پر اُس علاقے میں جگہ بنا سکیں جہاں سے منظر اور پس منظر کو بیک وقت دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے تو اس طرح کی رسائی ہماری طرف کے لوگوں کو کم کم ہی نصیب ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، برطانیہ کی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر، وینزویلا کے انقلابی لیڈر ہیوگو شاویز، آئی ٹی کی دنیا کے ڈان بل گیٹس، مغرب کی تیار کردہ دنیا میں اسامہ بن لادن کے کردار اور ہیلری کلنٹن وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے باوجود ان کے بارے میں لکھے گئے عارف انیس ملک کے کالموں سے ان کی جو تصویر سامنے آئی ہے اُس کے بیشتر نقوش مجھ سمیت تیسری دنیا کے بیشتر لکھنے اور سوچنے و الوں کے لیے بھی نئے نئے سے ہیں کہ شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ کے مصداق بہت کم لوگوں کی رسائی اُن نسلوں اور زاویوں تک ہوتی ہے جہاں سے عارف انیس ملک نے انھیں دیکھا اور دکھایا ہے۔
کچھ کالموں کے عنوان ہی ایسے ہیں کہ جو فوراً قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور وہ انھیں پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن اچھی اور مستحسن بات یہ ہے کہ کالم نگار نے یہ کالم کسی سنسنی خیزی یا توجہ طلبی کے لیے نہیں کیا بلکہ اپنی تحریر سے اس کو مناسب اور صحیح ثابت بھی کیا ہے مثال کے طور پر مارگریٹ تھیچر کی موت پر "دی بچ از ڈیڈ" یا خدمتِ خلق کی رعائت سے "صوفی بل گیٹس کے ساتھ ایک شام" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ ان مختصر تحریروں کو پڑھتے ہوئے آپ ان عنوانات کی معنویت اور برجستگی کے پوری طرح سے قائل ہو جاتے ہیں۔
"گوروں کے دیس سے" ہر لحاظ سے ایک دلچسپ اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے کہ اس کی معرفت ہم ترقی یافتہ دنیا کے اچھے اور بُرے ہر طرح کے پہلوئوں سے نہ صرف آشنا ہو سکتے ہیں بلکہ عارف انیس ملک کے عمدہ اور دلچسپ اندازِ تحریر سے بھی کماحقہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں کہ اُس کی نظر کی گہرائی اور مزاج کی شگفتگی ایک ا یسا خوب صورت مجموعہ ہے جو نایاب نہ سہی مگر کمیاب ضرور ہے۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کسی بھی مقام پر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کالموں کو لکھنے والا ادب اور صحافت کے میدان میں نسبتاً ایک نیا نام ہے ایسے موقعوں پر میرا دل پھر احمد مشتاق کے اُس بے مثال شعر کو دہرانے کی خواہش کرتا ہے کہ:
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں