گزشتہ تقریباً بیس برس سے ہر برس دسمبر کے مہینے میں مجھے اپنی ہی ایک نظم "ایک دن" کے حوالے سے کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہے کہ عرش صدیقی مرحوم کی نظم "اُسے کہنا دسمبر آ گیا ہے" کے بعد سوشل میڈیا میں شائد سب سے زیادہ اسی نظم کا تذکرہ ہوتا ہے، اس میں شک نہیں کہ دسمبر کے رُوپ لاتعداد ہیں اور اُن میں ایک سے ایک نیا اور خیال افروز ہے لیکن ہماری "دسمبرائی" نظموں میں اس کے ساتھ موت اور جدائی کے تصورات کچھ اس طرح سے جُڑ گئے ہیں کہ اب یہ ایک طرح سے اس کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔
اس بار اتفاق سے کووڈ 19 کی وجہ سے تقریباً پورا سال ہی دسمبر کی تصویر بن گیا ہے کہ شائد ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب کسی ایسے شخص کی رحلت کی خبر نہ ملی ہو جس کو آپ کم، زیادہ یا بہت زیادہ جانتے تھے، بعض اوقات تو رفتگان کی یہ بھیڑ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اپنے زندہ ہونے پر بھی شبہ سا ہونے لگتا ہے۔ غالبؔ نے اپنے لے پالک جوان بیٹے کی موت پر کہا تھا،
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
پہلے شعر میں موت سے بچنے (وقتی طور پر ہی سہی) اور دوسرے میں نہ بچ سکنے کی کیفیت کا جو انوکھا اظہار کیا گیا ہے وہ شائد غالبؔ ہی کر سکتا تھا مگر اس مسلسل غزل نما مرثیئے کا آخری شعر عام طور پر نظر انداز ہو جاتا ہے حالانکہ اس میں جانے والوں کا دکھ اپنی معراج پر ہے کہ:
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہو غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
میرے تعزیتی کالموں کے مجموعے کا نام "کوئی دن اور" بھی اسی تمنا کی شعبدہ بازی کا ایک استعارہ ہے جو گزشتہ 35 برسوں میں لکھے گئے کالموں میں پھیلا ہوا ہے، اس دوران میں کیا کیا عظیم، باکمال اور پیارے لوگ ہمارے درمیان سے اُٹھ گئے ہیں لیکن میرے خیال میں تعداد کے اعتبار سے 2020 کا موازنہ شائد ان میں سے کسی بھی ایک سال سے نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تو مرگِ انبوہ کا سا سماں ہے کہ کسی ایک موت پر بہہ نکلنے والے آنسو ابھی تھم بھی نہیں پاتے کہ غم ایک نیا چولا بدل کر آ جاتا ہے۔ گزشتہ چار دنوں میں چار ایسے لوگ اوپر تلے پردہ کر گئے ہیں جن سے بالترتیب ذاتی، قومی، ادبی اور بین الااقوامی ادبی برادری کے حوالے سے نہ صرف تعلق تھا بلکہ یہ چاروں کے چاروں انسانوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے اپنے حوالے سے خیر، محبت اور زندگی کے حسن کے نمایندہ کہلانے کے مستحق تھے، میری مراد بھائی بشیر، ظفرا للہ جمالی، شبی فاروقی اور ڈاکٹر حنیف ترین سے ہے۔
بشیر بھائی میرے رشتے کے بہنوئی (میری تایا زاد بہن سلمیٰ کے شوہر) ایک محنتی، خوش اخلاق، کم گو اور سیلف میڈ انسان تھے۔ ایک طویل عرصہ دوحہ قطر میں قیام کے بعد اب چند برسوں سے لاہور میں مستقل قیام پذیر تھے، ہمیشہ مسکرا کر ملتے، کم مگر اچھا بولتے تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے آج تک اُن کو کسی سے لڑتے یا اُونچا بولتے سنا ہو۔ میر ظفر اللہ جمالی سے ذاتی (اور وہ بھی فاصلے کی) ملاقاتیں تو شائد بہت زیادہ ہوں مگر اُن کی شخصیت سے تعارف خاصا پُرانا یعنی پنجاب یونیورسٹی کی طالب علمی کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔
تحریک پاکستان سے اُن کی خاندانی وابستگی، بلوچستان کی صوبے اور مرکز میں نمایندگی اور کھیلوں سے دلچسپی اور اُن کی سرپرستی کا ذکر تو بہت کیا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ خواجہ ناظم الدین اور محمد خان جونیجو کے علاوہ وہی ایک ایسے وزیر اعظم تھے جن کی اولین خوبی اُن کی پاکستان سے غیر مشروط محبت کے ساتھ ساتھ سیاست میں اخلاق، رواداری اور شرافت کا فروغ تھا جس کی وجہ سے اگرچہ تینوں کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا مگر انھوں نے ہمیشہ اقدار کو اقتدار پر ترجیح دی اور ان کی اسی خوبی کی بنا پر انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں سے یاد کیا جائے گا۔
ابھی چند دن پہلے ہمارے بہت پیارے گلوکار عالمگیر کے گُردے کا ٹرانسپلانٹ ہو اجس کے گائے ہوئے گیتوں نے اَسّی اور نویّ کی دہائیوں میں ہر کن رس آدمی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ رب کریم نے اپنی رحمت سے اُس کو تو شفا عنائت کر دی مگر اسی ہنگام میں ایک ایسا شاعر جس کے لکھے ہوئے گیتوں سے اُس کو زیادہ شہرت ملی یعنی شبی فاروقی، وطن سے دُور امریکا میں چپ چاپ رخصت ہو گیا۔
پی ٹی وی اور اس کے نئے چیئرمین نعیم بخاری کو چاہیے کہ اس بہت خوبصورت گیت نگار کے لکھے ہوئے گیتوں پر مشتمل ایک خصوصی پروگرام تیار کروائیں تا کہ آج کی نسل بھی جان سکے کہ ہمارے درمیان کیسے کیسے ہنر مند لوگ ہوا کرتے تھے۔
بھارتی شاعر ڈاکٹر حنیف ترین سے ملاقاتیں کم اور خط و کتابت زیادہ رہی۔ وہ اچھے تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کے ایک ایسے عمدہ اور سنجیدہ قاری بھی تھے جن کے نزدیک روحِ عصر کی ترجمانی میں ماضی اور مستقبل بھی قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو شہرت سے زیادہ صلاحیت کے فروغ پر توجہ دیتے ہیں تو اس برس یہ نظم ان چاروں کے ساتھ ساتھ اُن سب دوستوں کے لیے بھی جو اب جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں۔ دسمبر کے ابتدائی دنوں میں اس کے آخری چند دن
پھر دسمبرکے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری اک سوال کرتی ہے!
"کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے
کتنے نمبر بکھر کے، رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہوں گے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے"
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن ا س طرح بھی ہوتا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری لوگ دیکھتے ہوں گے
اُن کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشان صفحوں سے
نام میر ا بھی کٹ گیا ہو گا