یہ بات تو ہم سب نے بہت دفعہ پڑھی اور سُنی ہے کہ ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت کی تمثال بن جاتی ہے لیکن عملی طور پر اس احساس کی شدت کبھی کبھارہی اس تاثر کو وہ رنگ دے پاتی ہے کہ آپ کو لفظ اور معانی ایک دوسرے کی ایسی بھرپور گواہی دیتے نظر آئیں جن سے اس دعوے کی مکمل تائید ہوتی ہو ورنہ عام طورپر یہی ہوتا ہے کہ مرحوم کی پہلی برسی سے پہلے پہلے بیشتر لوگ جانے والوں کے نام تک بھول جاتے ہیں البتہ جہاں تک حال ہی میں سفرِ آخرت اختیار کرنے والے مولانا وحید الدین خان صاحب کا تعلق ہے۔
میرے خیال میں ہر اہلِ نظر اس بات کی کھل کر تائید کرے گا کہ مولانا اس وقت اسلامی دنیا بالخصوص برصغیر کے مسلمان علما میں سب سے معتبر اور توانا شخصیت تھے۔ اس عہد کے ایک اور جیّد اور بڑے عالم جاوید احمد غامدی کا اُن کے بارے میں ایک بیان آج ہی فیس بُک پر نظر سے گزرا جس میں انھوں نے مولانا مرحوم کے علمی مقام اور مذہبی خدمات پر جس محبت اور فراخدلی سے پُرتاصیف روشنی ڈالی وہ سننے کے قابل تھی۔
بلاشبہ مولانا مودودی کے بعد اپنی تصانیف کی تعداد، موضوعات اور معیار کے حوالے سے کوئی دُوسراعالمِ دین ہمیں اُس رُتبے پر نظر نہیں آتا جس پر مولانا وحید الدین فائز تھے۔ جدید دور میں اسلام اور قرآن کی تفسیر اور تفہیم اور اس کے خلاف ہونے و الی بین الاقوامی سازشوں کا جس مہارت، خوبی، وضاحت سے مولانا نے جواب دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
یو ٹیوب کی معرفت اُن کے بہت سے وعظ، لیکچر اور گفتگوئیں سننے کا موقع ملا ہے لیکن آج غامدی صاحب کے احساس دلانے پر خیال آیا ہے کہ واقعی ربِ کریم نے اُن کو ایک ایسی منفرد، میٹھی، پُر اثر اور دل کو موہ لینے والی آواز عطا کی تھی کہ اُن کی آواز اپنے مطالب و معانی سے ہٹ کر بھی اپنے اندر ایک عجیب کشش رکھتی تھی کہ بہت کم مردانہ آوازیں اور وہ بھی تحت میں اتنی خوب صورت ہوتی ہیں کہ بقول شاعر وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی ابھی ابھی میں نے اپنی یادداشت تازہ کرنے اور مولانا کی کچھ تصانیف کے بارے میں معلومات مرتب کرنے کی خاطر اُن کی کچھ ریکارڈنگز کو پھر سے سننے کی کوشش کر رہا تھا، یقین کیجیے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آدمی اُن کی علمیت کی داد دے، اندازِ بیان کی یا دل میں اُترتی ہوئی اس آواز کی جس ہر طرف دانش ہی دانش دامن کش ہورہی ہوتی ہے۔
ممکن ہے اس کی وجہ بھارت میں رہتے ہوئے عوام و خواص اور پیروجوان کے ہر طبقے سے بیک وقت رابطے کی ضرورت ہو لیکن مذہب، اخلاق، انسانی اقدار اور بعض پیچیدہ مسائل پر گفتگو کے دوران وہ عام بول چال میں انگریزی کے الفاظ ایسی کثرت لیکن ایسی خوبصورتی اور مہارت سے استعمال کرتے ہیں جو بظاہر اُن کے مولویانہ تشخص اور حُلیئے سے بالکل میل نہیں کھاتے مگر ان کے منہ سے اس قدر اچھے لگتے ہیں کہ ابلاغ پر اُن کی گرفت اور مہارت کو سلام کرنے کو جی چاہتاہے کہ کس طرح Art of thinkingپربات کرتے ہوئے وہ قرآن مجید، اسلامی تعلیمات، حیات رسولؐ پاک کے واقعات کے ساتھ برٹرینڈرسل، گاندھی جی، سچن ٹنڈولکر اور بی جے پی کے فلسفی رہنما کی مثالوں کو ایک دوسرے سے اس طرح آمیز کرتے چلے جاتے ہیں کہ مذاہب اور نظریات کا فرق اور زمان و مکان کے اُلجھے ہوئے مسائل دو اور دو چار کی طرح سمجھ میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ 1976ء میں انھوں نے "الرسالہ" میں ہر طرح کے مسائل سے متعلق جن عالمانہ مباحث اور مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا صرف اُن کے انتخاب پر مشتمل دو سو کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔
سلمان رشدی کا معاملہ ہو یا بابری مسجد کا، صلح حدیبیہ کا پس منظر ہو یا سورہ المدثر کی تفسیر، مخلوق کے علم کی محدودیت کی بات ہو یا خالقِ کائنات کی قدرت کی لامحدودیت، عام آدمی کے ٹوٹے پھوٹے سوال ہوں یا کسی ماہرفن کے ٹھوس استدلال ہر جگہ اور ہر موقعے پر مولانا کا میٹھا، دھیما اور عالمانہ ہوتے ہوئے عوامی لہجہ سیدھا آپ کے دل میں اُترتا چلا جاتاہے۔
حکومت ہند نے انھیں پدما بھوشن کا اعزاز بھی د یا لیکن اُن کا اصل اعزاز ایک پسماندہ مسلمان اقلیت والے ملک میں دین سے متعلق فکر کو واضح کرنا ہے جہاں غیر تو غیر خود اپنے دانش اور تحمل کی زبان نہ جانتے ہوں بہادری، سلیقے اور مہارت سے اپنی بات کو لوگوں تک پہنچانا ہے جس کے لیے بلاشبہ وہ ہمیشہ علمائے حق کی صفِ اول میں شمار کیے جائیں گے۔
نعت کے لیے یوں تو کوئی خاص مہینہ، دن یا وقت مقرر نہیں کہ یہ تو لفظوں کے بغیر بھی اہلِ ایمان کے دلوں میں ہمہ وقت گو نجتی رہتی ہے مگر یہ نعت چونکہ ہوئی ہی رمضان میں ہے، اس لیے اسے فوراً ہی شیئر کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ ان دنوں بزرگوں کے بقول برکت کے دروازے اور بھی زیادہ وسیع ہوجاتے ہیں۔
نعت
کُن، کے لمحے کامدعا ہیں آپؐ
ابتدا آپؐ، انتہا ہیں آپؐ
کم نصیبوں کے ہم نفَس، دلدار
بے وسیلوں کا آسرا ہیں آپؐ
ہر زمانے پہ آپؐ کا سایا
ہر زمانے سے ماورا ہیں آپؐ
جس نے ہر چیز کو بدل ڈالا
ایسا قدرت کا فیصلہ ہیں آپؐ
رحمتہ العالمین، لقب، یعنی
ہر طرف پھیلتی دعا ہیں آپ
جس کا جو حق ہے وہ اُسی کا ہو
اس تصورّ کے پیشوا ہیں آپؐ
جس نے رشتوں کو آبرو بخشی
اُس مواخات کی بِنا ہیں آپؐ
سدرۃ المنتہیٰ کے منظر کے
ایک بس ایک آشنا ہیں آپؐ
دشمنوں کے لیے معافی کی
آخری حد سے بھی سِوا ہیں آپؐ
صرف اک قوم کے نہیں امجدؔ
ساری خلقت کے رہنما ہیں آپؐ