پی ٹی وی یعنی پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن کے قیام کو آج 56 برس پورے ہو چکے ہیں۔ پرفارمنگ آرٹس، کلچر، تہذیب، زبان، خبر اور اس کے تجزیوں سمیت زندگی کے دیگر بہت سے شعبوں کے ساتھ اس ادارے کا جو شاندار اور قابلِ تعریف تعلق رہا ہے۔
اُس سے انکار ممکن نہیں کہ کم و بیش تیس برس (1970 تا2000) اس نے پاکستانی معاشرے کے لیے ایک آئینے کا کام کیا ہے ا ور بلاشبہ بہت اعلیٰ اور غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن آج کی نسل کو ان سب باتوں کا یقین دلانا بے حد مشکل ہے کہ آج کا پی ٹی وی زوال اور بے عملی کا شکار بن چکا ہے جس سے صرف عبرت ہی حاصل کی جا سکتی ہے کہ نیوز اور اسپورٹس کے چینل تو قدرے فعال نظر آتے ہیں مگر وہ پروگرامنگ جس میں آٹھ گھنٹے کے دوران میں ایک سے ایک بڑھ کر نظر نواز اور خیال افروز پروگرام آتا چلا جاتا تھا۔
اب دُور دُور تک نظر نہیں آتی۔ جن اسٹوڈیوز میں تین شفٹوں میں کام ہوتا تھا اب وہاں ویرانی ہے۔ اِکا دُکا گزارے لائق پروگراموں سے قطع نظر ٹی وی اسکرین سے لے کر اس کی شاندار عمارتوں اور بہترین اسٹوڈیوز میں سناٹا ہے۔ ڈرامہ، موسیقی، مزاح، ادب، قوالی، دیہاتی زندگی، کلاسیکی موسیقی، کوئز، بچوں کے پروگرام، مختلف صوبوں کے کلچر اور اُن کی زبانیں، علاقائی رقص، مذہبی اور اصلاحی نوعیت کے معتدل مذاکرے، سائنس، کارٹون، انٹرویوز غرض کس کس کا ذکر کیجیے کہ ان میں ہر ایک کو مناسب اور معیاری نمائندگی ملتی تھی اور یہ سب کے سب گھر کے اندر ہی تیار کیے جاتے تھے۔
بلاشبہ اُس وقت بھی کچھ خرابیاں تھیں کہ ارتقا کی بنیاد ہی خرابیوں کی پہچان اور ان کی اصلاح کا دوسرا نام ہے مگر عمومی طور پر پی ٹی وی پورے ملک کی نمائندگی کرتا نظر آتا تھا اور ان میں توازن قائم رکھنے کے لیے کیبل بوائے سے لے کر ایم ڈی تک ہر شخص اپنے حصے کا کام محنت اور خوش اسلوبی سے کرتا تھا۔
یونین بازی بھی تھی مگر وہ اس وقت تک بہتر انداز میں کام کررہی تھی۔ ہرا سٹیشن سفارش اور سازش کے بجائے اپنے مجوزہ پروگراموں کی فنی طاقت کے ساتھ ہر سہ ماہی میں زیادہ سے زیادہ جگہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا اور آرٹسٹوں کو معاوضے کی ادائیگی بروقت اور عزت مندانہ انداز میں کی جاتی تھی۔ میری نسل نے یہ منظر اور زمانہ چونکہ اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، اس لیے اُس کے لیے اس کی موجودہ حالت سے سمجھوتا کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔
جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ اُس وقت پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی اور یوں اس کا مقابلہ بھی اپنے آپ سے ہی تھا اور یہ کہ ابھی ناظرین بھی زیادہ میچور نہیں ہوئے تھے اور جو کچھ انھیں دکھایا جاتا تھا ہنسی خوشی دیکھ لیتے تھے، ان سب باتوں میں جزوی صداقت بے شک ہے مگر اس کی آڑ میں ان تمام حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا جن کی وجہ سے وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
گزشتہ بیس برس میں یہ سوال بار بار اُٹھایا گیا ہے کہ کس طرح سے اس ادارے کی تنظیم نو کر کے اور اس میں مزید انویسٹمنٹ کرنے کے بعد اس کے تکنیکی وسائل کوبڑھایا جائے تا کہ یہ نجی چینلز کا مقابلہ کرسکے، اس بات میں وزن تو یقیناً ہے مگر یہ اس سوال کا صحیح جواب نہیں ہے، یہاں مجھے ایک پرانی حکایت یاد آرہی ہے کہ ایک صاحب کو حکیم کے پاس لے جایا گیا کہ اس کے پیٹ میں سخت درد ہے، اس کی دوا دی جائے۔ حکیم صاحب نے پوچھا، اس نے کیا کھایا تھا؟ جواب ملا کہ جلی ہوئی روٹی۔ حکیم صاحب نے مریض کو آنکھوں میں ڈالنے کے لیے قطرے دے دیے۔
سوال کیا گیا کہ پیٹ کے درد کے علاج کا آنکھوں میں ڈالنے والے قطروں سے کیا تعلق ہے۔ حکیم صاحب نے جواب دیا، یہ قطرے اس لیے دیے ہیں کہ آیندہ سے یہ دیکھ کر روٹی کھائے کہ وہ جلی ہوئی نہ ہو۔ اسی منطق کے مطابق پی ٹی وی کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ گِرا کیسے تھا؟ زوال اور تباہی کی وجوہات کو جانے اور سمجھے بغیر آپ جتنے مرضی وسائل اس کی تعمیرنو کے لیے جھونک دیجیے یہ کبھی ٹھیک نہیں ہو گا اور یہ وسائل بھی چھلنی میں پانی کی طرح گر کر برباد ہو جائیں گے کہ اصل بیماری پھوڑے نہیں بلکہ وہ انفیکشن ہے جس کی وجہ سے یہ پیدا ہوئے تھے، سو جب تک اس انفیکشن کا علاج نہیں ہو گا، یہ جگہ بدل بدل کر اس طرح پیدا ہوتے رہیں گے۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا اور کہا ہے کہ نجی چینلز کا کبھی کوئی عامیانہ سا پروگرام دیکھ کر مجھے غصہ آتا ہے لیکن پی ٹی وی پر اگر کوئی ایسا پروگرام ہو تو مجھے دُکھ ہوتا ہے، اس لیے کہ میرا اس ادارے سے بہت گہرا تعلق ہے۔
ربِ کریم کی رحمت اور میری محنت یا صلاحیت کے بعد مجھے لوگوں تک پہنچانے اور اُن کی محبت کا حق دار بنانے میں سب سے زیادہ رول پی ٹی وی ہی کا ہے، سو تمام تر اختلافات اور ناراضی کے باوجود میں اسے own کرتا ہوں اور اس کی درماندگی دیکھ کر مجھے ایک ذاتی نوعیت کا دکھ بھی ہوتاہے۔ عمومی اخلاقیات اور اس ادارے کے ساتھ اپنے اس خصوصی تعلق کے باعث آج اس کی 56 ویں سالگرہ کے موقع پر اصولاً مجھے اپنے آپ کو صرف رسمی مبارکباد دینے تک محدود رکھنا چاہیے تھا لیکن اپنے ہی ایک شعر کے مطابق
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا، ترے مزاج کا بندا نہیں ہوں میں
ایسا نہ کرنا میری مجبوری بھی تھی اور ضرورت بھی۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کی ابتدائی کامیابی، مقبولیت اور ترقی پر فخر کرنا بنتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس کی حالیہ صورتِ حال پر زیادہ افسوس ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی اس ادارے کے بارے میں دلچسپی اور فکر مندی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اُس نعیم بخاری کو اس کی چیئرمین شِپ کا عہدہ سنبھالنے پر مجبور اور قائل کر لیا جو اس سے پہلے اور اس سے کہیں زیادہ بڑے اور زور دار عہدوں کو ٹھکرا چکا ہے۔
وہ ایک بہادر، تخلیقی اور چیلنج قبول کرنے والا شخص ہے جو ہر صورتِ حال میں اپنی مسکراہٹ کو قائم رکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اُس نے یہ کانٹوں بھرا تاج پہنا ہے تو یقینا اسے اس کی سنگینی اور ہمہ گیر دباؤ کا اندازہ بھی ہو گا، سو ایسے میں فی الوقت اُس کے لیے دُعا ہی کی جا سکتی ہے کہ میرے نزدیک یہ کسی طرح سے بھی مبارکباد کا محل نہیں ہے۔
میں بنیادی طور پر ایک رجائیت پسند انسان ہوں اور اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر نیت نیک، صلاحیت مضبوط اور ارادہ محکم ہو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، سو اس امکان کو بھی ردّ نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی سچ مچ کا معجزہ رُونما ہو جائے اورہم پھر پی ٹی وی کو اپنے ہونے کا ویسا ہی بھرپور استعارہ بنا سکیں جو یہ کبھی ہُوا کرتا تھا۔ سوچنے میں کیا حرج ہے؟