Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Armaghan e Jameel Aur Jadeed Adab Ka Siyaq

Armaghan e Jameel Aur Jadeed Adab Ka Siyaq

بہت دنوں بعد دو ایسی کتابوں کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملاجو موضوع اور نفسِ مضمون کے حوالے سے اگر مشکل نہیں تو مختلف ضرور ہیں کہ ان کا تعلق تحقیق اور تنقید سے ہے جن سے میری دعا سلام تو رہی ہے مگر دوستانہ کبھی نہیں ہوا لیکن ان کتابوں کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا بھی غیر ذمے داری ہے کہ ارمغان جمیل میں ہم سب کے محترم جمیل جالبی مرحوم کی علمی اور ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے اور دوسری کتاب میں برادرِ عزیز ڈاکٹر پروفیسر علمدار حسین بخاری نے جدید ادب کا جدید تر پیمانوں سے ایک ایسا جائزہ "ایک پس نو آبادیاتی مطالعہ" کے ضمنی عنوان کے ساتھ پیش کیا ہے۔

"ارمغانِ جمیل کے مرتب ڈاکٹر زاہد منیر عامر ادب اور تدریس کی دنیا کا ایک بہت ہی جانا پہچانا نام ہیں یوں تو انھوں نے جمیل جالبی صاحب کی تحریروں کو مختلف ضمنی عنوانات "مورخ"، "نقاد"، "مترجم"، "جریدہ نگار"، "شخصیت نگار"، "مدّون"، "کلچر شناس" اور"لغت نگار" میں بانٹ کر نسبتاً نئی نسل کے چند عمدہ اور سنجید ہ نقادوں کے مضامین کو یکجا کر دیا ہے لیکن سب سے زیادہ خاصے کی چیز اُن کا وہ ابتدائی مضمون ہے جو "تعلق اور تحقیق کی خوشبو" کے زیرِعنوان اس کتاب کے 220 میں سے 80 صفحات پر محیط ہے اور جس کی مزید تقسیم مضمون اور اُس کے حوالہ جات میں ایک جیسی یعنی 40 صفحات فی کس کے حساب سے کی گئی ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں جمیل جالبی مرحوم اپنی نّوے(90) سالہ طویل زندگی کے (آخری چند برسوں سے قطع نظر) ہر دور میں ادب کی تنقید و تحقیق کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے منصوبوں اور موضوعات پر بھی گراں قدر کام کرتے رہے ہیں جو اپنی بنیاد میں پورے پورے اداروں کے کرنے والے تھے جب کہ انھوں نے بعض بہت مشکل کلاسیکی متون کی جو تدوین کی ہے وہ بھی اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہیں۔

اس ضمن میں اُردو ادب کی تاریخ جو چار ضخیم جلدوں پر پھیلی ہوئی ہے اور اب تک کی بہترین اُردو انگریزی لُغت کی ترتیب اور اشاعت کا نام ایک ایسی مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے جو اپنی جگہ پر بے مثال ہے اسی طرح اب تک کے اُردو ادب کی عمر میں بعض کلاسیکی مسوّدات کے متن کی صحت اور ترتیب اور خواندگی کے ذریعے انھوں نے تقریباً دو سو برس کا ایک ایسا مصدقہ اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے کئی بُت ٹوٹے اور بے شمار اپنی جگہ سے ہل گئے ہیں۔

زاہد منیر چونکہ خود تحقیق کے مردِ میدان ہیں اس لیے انھوں نے اپنے مضمون میں جہاں جالبی صاحب سے اپنے تعلق کی خوشبو کو پھیلایا ہے وہاں تحقیق کے میدان میں ہر اُس نزاعی بات کا بھی کھل کر ذکر کیا ہے جس سے اُن کی بعض تحقیقی غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے اس طرح یہ ارمغان اپنی عمومی تعریف سے ہٹ کر کچھ "مشروط" سا ہوگیا ہے لیکن اس پر اعتراض اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ کیا خبر کل کو یہی انداز ایک روائت کی شکل اختیار کر جائے۔

جن دنوں ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے کچھ نئی ادبی اصطلاحات انگریزی اور کچھ دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی معرفت ادبی فضا میں داخل تو ہو رہی تھیں مگر ابھی تک نہ تو اُن کے اُردو تراجم پر اتفاقِ رائے ہوسکا تھا اور نہ ہی اُن کی نوعیت اور حدود کا کوئی باقاعدہ تعین ہوپایا تھا بلکہ کچھ اصطلاحات تو ایسی تھیں کہ جن سے متعلقہ ادب پارے اور اُن کی تنقید ابھی ہمارے اس وقت تک کے ادب میں متعارف بھی نہیں ہوئے تھے، میری مراد ساختیات اور پسِ ساختیات، جدیدیت اور مابعدِ جدیدیت اور نو آبادیاتی اور پس نو آبادیاتی تقسیم کی اصطلاحات سے ہے جن کا زیادہ تر استعمال فیشن اور ایک طرح کے احساسِ برتری اور خودنمائی کے طور پر کیا جاتا تھا سو بہت سے دیگر احباب کی طرح میں نے بھی بہت دیر تک ان کے اطلاق اور معنویت کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔

میں شکر گزار ہوں ڈاکٹر علمدار حسین بخاری کا کہ بہت دنوں بعد اُن کی وساطت سے ایک ایسی کتاب پڑھنے کو ملی ہے جس کے مصنف کو پتہ ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور یہ کہ اُسے اپنی بات کس طرح سے کرنی چاہیے اگرچہ موضوع کی مناسبت اور قارئین سے اس کے محدود تعارف کی وجہ سے اُن کی نثر کا انداز اور اُسکی تفہیم خصوصی اور گہری توجہ کے متقاضی ہوجاتے ہیں مگر اس کی بنیادی وجہ ان موضوعات کے وہ نقائص ہیں جنھیں اگر پیدائشی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مثلاً پہلے اس کے مختلف ابواب کے عنوانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں نفسِ مضمون کی بات بعد میں ہوگی۔

1۔ تاریخ پاک و ہند، نو آبادیاتی ڈسکورس اور ادبی متن ایک پس نو آبادیاتی مطالعہ۔ 2۔ برصغیر میں نو آبادیاتی نظام تعلیم، تشکیلِ ذہنِ جدید اور ادبی متن۔ 3۔ نو آبادیاتی سیاسی و سماجی پالیسی اور ہندوستانی سماج کی کایا کلپ۔ 4۔ مرکز استعمارکی فکری پیش قدمی کے جدید ہندوستانی ذہن پر اثرات۔ 5۔ نئی اُردو ادبی روائت کی تشکیل۔ ایک پس نو آبادیاتی مطالعہ۔

اب آپ خود سوچئے کہ جب ایسے غیر مانوس اور قدرے مبہم حوالوں اورادق اصطلاحات کے ساتھ ہم جدید ادب کے سیاق کو سمجھنے اور مرتب کرنے کی کوشش کریں گے تو کیسی کیسی اُلجھن ہماری دامن گیر نہ ہوگی مگرداد دی جانی چاہیے علمدار بخاری کو کہ انھوں نے یہ بھاری پتھر چُوما ہی نہیں اُٹھا کر دکھایا بھی ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے میں صرف ایک عبارت کے کچھ حصے پانچویں اور آخری مضمون سے نقل کرتا ہوں کہ اس کا براہ راست تعلق ہماری نئی اُردو روائت کی تشکیل سے ہے اور جو ہم پر یہ بھی واضح کرتا ہے کہ پسِ نو آبادیاتی مطالعہ ہوتا کیا ہے اور اسے کس طرح سے کرنا چاہیے۔

"1857ء کی جنگِ آزادی کی ہولناک ناکامی کے بعد دلی بھی اُجڑی اور لکھنو کی شان و شوکت کو بھی زوال آیا تو نو آبادیاتی پالیسی کے تحت اُردو کے کئی مراکز اُبھر کر سامنے آئے جن میں لاہور اور حیدر آباد دکن اہم تھے? اُنیسویں صدی عیسوی کی نصف دوم میں تعلیمی اور لِسانی تاریخ کے سرسری مطالعے سے ہی عیاں ہوجاتاہے کہ اہلِ پنجاب، بنگالیوں کی طرح خو داپنی مادری زبان کے حق میں کوئی متفقہ موقف نہیں اپنا سکے۔ سکھ، پنجابی اور ہندو بندی کے حق میں لڑتے ہوئے منقسم ہوگئے، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فارسی کا دفاع کرنے کے بجائے اُردو کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگئی اور یوں ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں پنجاب کا دانشور اور ادیب خود پنجاب کی مقامی ادبی اور لِسانی روایات سے منحرف دکھائی دیتا ہے? ترقی پسند ادیبوں اور نظریہ سازوں نے مغربی استعمار کے سامنے سینہ سپر ہونے کی اپنی سی کوشش کی لیکن خود اُن کے اپنے فکری ڈانڈے بھی بالآخر مغربی فکر سے ہی جُڑ رہے تھے۔"