دنیا کو نظر آتا ہی کشمیر نہیں کیا
اس خواب کی تقدیرمیں تعبیر نہیں کیا
نقاشِ ازل ایک نظر اس کی طرف بھی
وادی یہ کسی زخم کی تصویر نہیں کیا
بے نور ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے جزیرے
ظالم کا یہاں کوئی عناں گیر نہیں کیا
دیکھو تو سہی شان ذرا اہلِ وفا کی
زیور کی طرح پائوں میں زنجیر نہیں کیا
وہ جنتِ ارضی کہ جو مقتل کی طرح ہے
اے اہلِ نظر، وادیِ کشمیر نہیں کیا!
اگرچہ مختلف اوقات میں کئی ذرایع سے سیّد علی گیلانی مرحوم کی شفقت اور تحسین مجھ تک پہنچتی رہی ہے لیکن چندقبل برس لکھے گئے، ان اشعار کو پڑھنے کے بعد اُن کی محبت میں دعائوں کاجو اضافہ ہوا، وہ میرے لیے کسی قیمتی سرمائے سے کم نہیں اور یوں میرے لیے اُن کی رحلت ایک قومی اور ملّی المیئے کے ساتھ ساتھ ایک ذاتی سانحہ بھی ہے جس میں اُن سے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کی نسبت بھی ہے کہ وہ بھی وہیں کے فارغ لتحصیل تھے۔
یوں تو اُن کی ساری زندگی ہی تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے جدوجہد کرتے گزری جس کے لیے وہ اسمبلی میں عوامی نمایندگی کے ساتھ بار ہا نظر بندی اور قیدوبند کی صعوبتوں سے بھی گزرے مگرایک صحافی اور قلم کار کی حیثیت سے بھی اُن کاکام بہت قابلِ قدر ہے کہ ایسے پُرآشوب حالات میں بھی نہ صرف انھوں نے تیس سے زیادہ کتابیں لکھیں بلکہ تقریر کے میدان میں ہی پیش پیش رہے کہ ان کے خطاب کے بغیر آزادی کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی جلسہ مکمل نہیں ہوسکتا تھا، بڑھاپے میں بھی ان کی جرات، حوصلہ مندی اور للکار جوانوں کو شرماتے تھے، اُن کی زندگی کے آخری دس بارہ برس نظر بندی تحریر و تقریر کی پابندی اور بیماریوں سے لڑتے گزرے۔
1972 سے 1987کے درمیان وہ تین مرتبہ اسمبلی کے ممبر بنے جہاں بھارت نواز لوگوں کی کثرت کے باوجود انھوں نے نہ صرف بھارتی قبضے کو کھل کر ناجائز کہا بلکہ سر عام پاکستان سے الحاق کے نعرے بھی بلند کرتے رہے۔ وہ جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے اُن چند گنتی کے سیاستدانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے مولانا مودودی سے دینی علوم کے ساتھ ساتھ ہمت پامردی اور استقلال کا سبق بھی لیا۔
بھارتی سیاسی چالبازیوں اور کئی پاکستانی حکومتوں کی کمزوریوں کے باعث اور بالخصوص سقوطِ ڈھاکا کے بعد مقبوضہ کشمیر کی نوجوان نسل میں جب تھرڈ آپشن یعنی آزاد اور خود مختار کشمیر کو ایک علیحدہ ملک کے طور پر قائم کرنے کی تحریک نے زور پکڑا تو یہ سیّد علی گیلانی ہی تھے جنھوں نے کھل کر اس کے پاکستان سے الحاق کا نعرہ بلند کیا۔ کُل جماعتی حُریت کانفرنس کے قیام کے بعد وہ ہمیشہ اس کے پلیٹ فارم سے بھارتی تشدد کی مذمت اور آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادتوں کے برعکس اپنے اس موقف سے کبھی ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔
1981 میں ایک نئے قائم کردہ مقدمے کے تحت اُن کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا اور گزشتہ چالیس برس ایک حج کے سفر کے سوا انھیں کہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، انھیں ماضی قریب کے انقلابی اور مزاحمتی رہنمائوں فیدل کاسترو، ہوچی منہ، نیلسن منڈیلا، ریمون میگ سائے سائے اور امام خمینی جیسی عالمی شہرت تو بوجوہ شاید نہ مل سکی ہو مگر جب بھی کشمیر اور کشمیریوں کوآزادی ملی اس ضمن میں جتنے بھی ناموں کو اس کا کریڈٹ دیا جائے یقینا اُن میں سب سے پہلا اور اہم ترین نام سید علی گیلانی ہی کا ہوگا۔
اتفاق سے انھی دنوں میں جدا ہونے والے بلوچستان کے ایک بہت بڑے سیاستدان سردار عطا اللہ مینگل نے بھی سید علی گیلانی کی طرح 92برس کی عمر ہی پائی، فرق صرف یہ ہے کہ سردار عطا اللہ مینگل چند برس قبل بڑھاپے، علالت اور بلوچستان کے بعض مخصوص سیاسی مسائل اور مرکز سے ناراضی کے باعث سیاست سے الگ ہوکر گوشہ نشین ہوگئے تھے اور اب اُن کے قبیلے اور سیاسی نظریات کی نمایندگی اُن کے صاحبزادے سردار اختر مینگل کر رہے تھے جب کہ سید علی گیلانی کو بھارتی حکومت نے زبردستی اُن کے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔
بلوچستان میں سرداری نظام اگرچہ انگریز کے زمانے سے پہلے کا چلا آرہا تھا مگر اس میں تمام تر غربت اور کم وسائل کے باوجود پنجاب کے جاگیردارانہ اور سندھ کے وڈیرہ شاہی نظام جیسی غلامانہ ذہنیت نہ ہونے کے برابر تھی یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ان طبقوں نے جانے والے انگریز کی جگہ اُس کے بنائے طبقاتی نظام کے تحت نہ صرف بدلتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرلیا بلکہ بہت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ عوام کے نام پر لوٹ مار کے پروگرام میں شریک ہوگئے، اقبال نے کہا تھا۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
تو ہوا یہ کہ اپنی عددی اکثریت اور وسائل کی نسبتاً کثر ت کے باعث مرکز میں بننے والی حکومتوں نے ایک مخصوص پروگرام کے تحت بلوچستان کے سرداروں کو بھی یا تو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی یا انھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا، سو ہم نے دیکھا کہ خان آف قلات ہوں یا مینگل، مری، بگٹی اور دیگر قبائل کے سردار یہ جزوی طور پر تو مرکز کے ساتھ ملتے جلتے رہے مگر ان میں قدیم سرداری نظام کے رسیا اور جدید تعلیم اور نظریات کے حامل اوردو واضح گروپ بنتے چلے گئے لیکن دونوں میں قبائلی عصبیت، صاف گوئی، بہادری اور اپنی پہچان اور حقوق کی حفاظت ہمیشہ مشترکہ اوصاف کی صورت میں قائم رہے اور دونوں طرف سے مناسب معاملہ فہمی نہ ہونے کے باعث معاملات سلجھنے کے بجائے اُلجھنا شروع ہوگئے اور ہم نے دیکھا کہ ایک طرف سردار عطا اللہ مینگل صوبے کے مختارِ کل ہوتے ہیں اور دوسری طرف انھیں شہر یا ملک چھوڑ کر مسلح جدوجہد اور قیدوبند کا رستہ اپنانا پڑتا ہے۔
سردار عطا اللہ مینگل کی سرداری اُن کی بڑائی کی واحد وجہ نہیں تھی، وہ ایک بہت تعلیم یافتہ، سمجھدار، باشعور اور بالغ نظر انسان ہونے کے ساتھ "جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا" کے رموز سے بھی آشنا تھے، ایسے لوگ جس عزت اور توجہ کے مستحق ہوتے ہیں اگر وہ اُن کو صحیح طرح سے نہ دی جائے تو ان کی شخصیت کے کئی جوہر بہت حد تک ضایع ہوجاتے ہیں۔
اپنے اگر کسی غلطی یا غلط فہمی کی وجہ سے ناراض ہوجائیں تو اُن سے منطق اورقانون کی موشگافیوں کے بجائے محبت، وضعداری، برداشت اورسب کے لیے خیر کے اندا ز میں بات کرنے کا رویہ ہی فاصلوں کو کم کرسکتا ہے۔ میرے نزدیک سردار عطا اللہ مینگل کی زندگی اپنے تمام تر تضادات سمیت ایک بہادر آدمی کی زندگی تھی جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ ربِ کریم سید علی گیلانی اور سردار عطا اللہ مینگل کی رُوحوں کو اپنی امان میں رکھے اور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔