مظفر حنفی مرحوم سے ملاقات تو 1981 میں جامعہ ملیہ کے پروگرام کی وساطت سے ہوئی جہاں میں "شام بہار" ٹرسٹ انبالہ کے مشاعرے میں شرکت کے بعددلی پہنچا تھا مگر اُن کی شاعری سے تعارف پہلے سے تھا۔
مظفر حنفی ان دنوں جامعہ کے شعبہ اُردومیں پروفیسر تھے، اس کے بعد خطوط اور قاسمی صاحب کے "فنون" کے ذریعے رابطہ تو رہا مگر دوبارہ ملاقات کی صورت نہیں نکل سکی۔ اب جو اُن کے صاحبزادے پرویز مظفر نے (جو خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں) اُن کے چند مقطعے مجھے بھجوائے تو جی چاہا کہ اُن کی شاعری پر بات کی جائے کہ اُردومیں مزاح گو شاعر تو اچھے خاصے ہیں مگرطنز اور وہ بھی اچھا بامعنی اورخیال افروز طنز بہت کم نظر آتا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی، سیّد ضمیر جعفری، انور مسعود اور دلاور فگار کی شاعری میں طنزیہ عناصر یقینا ہیں مگر اُن پر مزاح کا رنگ غالب نظر آتا ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مظفر حنفی اور اُن کے روحانی اُستاد شادعارفی کی شاعری ہمیں سب سے الگ اور منفرد دکھائی دیتی ہے۔ شاد عارفی کی زندگی جس ڈھب سے گزری، اُس کے حوالے سے اگر انھیں ناشاد عارفی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اُن کے حالات مرتے دم تک بہتر نہ ہو سکے۔
مظفر حنفی نے ساری زندگی اُن کے لیے نہ صرف بہت کچھ لکھا بلکہ شاعری میں بھی اُن کی روایت کو بہت اچھی طرح سے نبھایاہے، اسلوب کی حد تک اُن کا یہ کمال یگانہ سے کسی حد تک متاثر نظر آتا ہے لیکن مزاج اور مضمون آفرینی کے حوالے سے دونوں میں بہت فرق ہے۔
مظفر حنفی کے ہاں طنز کسی مخصوص موضوع تک محدود نہیں مگر اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ وہ تغزل کے مزاج اور اہمیت کو بھی پوری طرح سے سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی بات پر تنقید غزل کی محبوبیت کو مجروح کرتی نظر نہیں آتی، ان کے شعری مجموعوں کی ورق گردانی سے جو شعر پہلی نظر میں اچھے اور اِس موضوع کے مطابق لگے، اُن میں سے چند ایک اسی طرح سے ہیں۔
شعروں کے یہ تیر مظفر چڑھی کمانیں غزلوں کی
تم جس لہجے میں کہتے ہو شمشیر اور سناں کیا ہے
بس کہہ دیا کہ ہم نہ چلیں گے کسی کے ساتھ
پیچھے پلٹ کے دیکھ رہاہے زمانہ کیوں
خود اپنے آپ کو پایاب کرتی رہتی ہے
عجب جنوں ہے ندی کو کنارے توڑنے کا
شامل ہیں ان میں شادؔ و مظفرکے نام بھی
کچھ لوگ انقلاب تو لائے تھے شعر میں
مظفرؔ اپنی راہ خود بنائے گی مری غزل
میرا قلم نہ آئے پٹی پٹائی راہ پر
یہ اور بات کہ دیرو حرم بھی راہ میں ہیں
میاں ہمیں تو کسی اور سمت جانا ہے
منصور بھی مجھ میں ہے بھگت سنگھ بھی مجھ میں
سُولی پہ لٹکتی ہے مری ذات ہمیشہ
افسردگی کو آگ لگائی تھی میرؔ نے
غالبؔ نے سبز باغ دکھائے تھے شعر میں
ہے شادعارفی سے مظفر کا سلسلہ
اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہوگئے
ہماری نسل کی فطرت شُتر گُربہ کی حامل ہے
تمنا شہر یاری کی وطیرہ گوسفندی کا
کچھ لوگوں کو جھوٹی تعریفیں بھاتی ہیں مثلاً تم
کچھ سچی تعریفیں سن کے شرماتے ہیں مثلاً میں
ستم رسیدہ ہے ہندوستان میں اُردو
اسی زبان میں ہندوستان زیادہ ہے
مظفرؔ عصرِ نو کے زخم گنوانے میں قاری کو
کُھلی آنکھوں سے اشیائے حسیں کو دیکھا ہوگا
معاصرین مجھے ردّ کر یں تو کرنے دو
کہ اپنے عہد میں غالبؔ سخن وروں میں نہ تھا
سوچ نئی ہے لہجہ تیکھا، لفظ کھرے آواز جُدا
دانستہ رکھتا ہوں اپنے شعروں کا انداز جدا
ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا
اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ
اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ
اُٹھ گیا شعر سے ابلا غ مظفر حنفی
جب تلک تم بنے بات بنائے رکھنا
تکمیل ذات، کربِ وفا وحدت الوجود
بس کیجیے جناب کہ ہم بور ہوگئے
مقطع عام طور پر غزل میں آرائش کا سا کام کرتا ہے کہ مگر اس کے مضامین شاعر کے نام کے استعمال کی وجہ سے کوئی بہت زیادہ چونکانے والے نہیں ہوتے مگر یہاں بھی مظفر حنفی اپنی تخلیقی صلاحیت کا جادو جگاتے نظر آتے ہیں سوچلتے چلتے اُن کے کچھ مقطعے بھی دیکھتے جائیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔
اپنے جی کا حال مظفرؔ دنیا سے کیوں کہتے ہو
غم خود ہی کم ہوجائے گا جب ہمدرد نہیں ہوں گے
اُس کو ارمان تھا اُڑنے کا مظفر لیکن
اب پرندوں کو گرفتار کیا کرتا ہے
پھر کہا بحر نے مظفر سے
آیئے ڈوب جایئے اُستاد
مظفر گلے پڑ گئی شاعری
یہ پیشہ مرا خاندانی نہیں
مظفر رات میں آندھی کی زد پر
لیے شمعِ سخن جاتا کہاں ہے