وزیراعظم عمران خان کو میرا مشورہ ہے کہ جب اسلام اور اسلامی موضوعات پر بات کریں تو الفاظ کے چنائو میں احتیاط لازمی برتیں بلکہ بہتر ہوگا کہ ایسے معاملات پر جب بات کرنا ہو تو پہلے سے لکھ لیا کریں تاکہ کوئی ایسا لفظ یا بات منہ سے نہ نکل جائے جو نامناسب ہو یا ادب کے تقاضوں کے برعکس ہو۔ وزیراعظم نے اپنے آس پاس وزیروں مشیروں کی ایک فوج جمع کی ہوئی ہے، کوئی سیاسی امور پر مشورہ دیتا ہے تو کسی کو معیشت، کسی کو اوورسیز پاکستانیوں، کسی کو ریفارمز، ماحولیات، سول سروس تک کے امور کے لیے اپنی کابینہ میں رکھا ہوا ہے، بہتر ہوگا اسلامی معاملات میں رہنمائی کے لیے بھی اسلامی اسکالرز سے نہ صرف مستقل رابطے میں رہیں بلکہ ایک کونسل یا کمیٹی بنائیں جو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے مطابق پاکستان کو چلانے کے لیے باقاعدہ لائحہ عمل تیار کرے۔ ریاستِ مدینہ کا ذکر تقریروں میں تو بہت ہوتا ہے لیکن عملاً اس سلسلے میں کچھ نہیں ہو رہا بلکہ ہماری جو حالت ہے، وہ روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ اسلامی ریاست کی طرف سفر کرنے کے برعکس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جہالت کے دور کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستانی شوبز کی دو خواتین کو Sexist قرار دیے جانے پر شرمندگی کے بجائے میڈیا کے ذریعے اِسے ایسے اجاگر کیا جا رہا ہے جیسے یہ پاکستان کے لیے بڑے کارنامے کی بات ہو۔
گزشتہ ہفتے جو کچھ وکیلوں نے لاہور میں کیا، ایسا واقعہ تو جہالت کے زمانے میں بھی نہیں سنا۔ اس پر شرمندگی کے بجائے عام وکیل کیا، بڑے بڑے وکلا کالے کوٹ کے دفاع میں سامنے آ گئے۔ اس کیس میں ڈاکٹروں کو مظلوم دکھایا گیا
لیکن کسی سے کیا چھپا ہے کہ ڈاکٹرز بھی اسپتالوں میں کیا کچھ نہیں کرتے۔ اگر ہم کہیں کہ خرابی کا تعلق انہی دو طبقوں سے ہے تو یہ بھی غلط ہوگا، یہاں تو جس طرف دیکھیں نہ صرف خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے بلکہ خرابیاں اور بے ہودگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ معاشرتی طور پر ہمیں جس گراوٹ کا سامنا ہے وہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے جسے ہماری ریاست، سیاست، میڈیا وغیرہ سب نظر انداز کر رہے ہیں۔ اخلاق ہمارے خراب، فعل ہمارے جانوروں سے بھی بدتر، کسی کی یہاں عزت محفوظ نہیں، بچوں تک کو بڑھتی ہوئی درندگی کا سامنا ہے۔ زبان سیاستدانوں تک کی دیکھیں یا ذرا غور کریں کہ سوشل میڈیا پر ہمارے بچے، نوجوان، خواتین اور نام نہاد پڑھے لکھے کتنے بدتہذیب اور بدتمیز ہو چکے ہیں۔ یہ حالات کسی بھی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں لیکن ہم نہ اس پر شرمندہ ہیں اور نہ ہی اس بات کا ادراک ہے کہ ہم میں کتنی گندگی سرایت کر چکی ہے۔
کراچی میں ٹریفک پولیس والا ایک خاتون ڈرائیور کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر روکتا ہے تو وہ خاتون جو مہنگی گاڑی میں بیٹھی اور پوش علاقے کی رہائشی تھی، اپنے عمل پر شرمندہ ہونے کے بجائے جب زبان کھولتی ہے تو ایسے بدتمیزی سے بات کرتی ہے کہ سننے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے یہ منفی بلکہ جنگلی رویے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں جس پر ریاست نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ویسے سچ پوچھیں تو اس بڑھتی ہوئی بدتمیزی، بدتہذیبی اور بے شرمی میں تحریک انصاف کا بھی اہم کردار رہا۔ اب تو سیاست بہت بدتمیز ہو چکی۔ یہاں تو تحریک انصاف کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اُس کے رہنما قانون ہاتھ میں لینے اور تشدد پر اکسانے والی باتیں بھی کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جس دن کالے کوٹ والوں نے دنیا بھر میں پاکستانیوں کا منہ کالا کیا، اُس سے ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان کا بیان اخبارات میں ہیڈ لائنز کے طور پر کچھ یوں شائع ہوا "نوجوان کرپٹ لوگوں کا ہر جگہ تعاقب کریں"۔ جب وزیراعظم اس انداز میں بات کریں گے اور وہ بھی لندن میں پاکستانیوں کے ایک جتھے کی طرف سے نواز شریف کی رہائشگاہ پر حملے کے دو دن بعد، تو پھر کسی دوسرے سے کوئی کیا شکایت کرے؟ میری وزیراعظم سے درخواست ہوگی کہ وہ سنجیدگی سے پاکستانی معاشرے کی کردار سازی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کریں اور نہ صرف اپنے اور اپنی پارٹی کے نفی رویوں کو بدلیں بلکہ پورے معاشرے کو تمیز اور تہذیب سکھانے کے لیے تعلیمی اداروں، میڈیا اور دوسرے ذرائع کو استعمال میں لاکر ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں نہ صرف انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو بلکہ وہ انسانیت کا بہترین نمونہ ہو جس کے بغیر ریاستِ مدینہ کے رول ماڈل کی طرف ہم بحیثیت ِقوم سفر نہیں کر سکتے۔