اگر چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا لہجہ بھی بدل گیا تو سمجھ لیں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ حکمراں جماعت بری الذمہ ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ دوسرے محاذ کی طرف (یعنی حکومت اور حکومتی جماعت کی طرف) جا رہے ہیں۔ چیئرمین نیب نے یہ بھی امید دلا دی کہ یکطرفہ احتساب کا تاثر دور کریں گے۔ گزشتہ روز وہ ایک تقریب سے ایسے بات کر رہے تھے جیسے کوئی سیاستدان بول رہا ہو۔ چیئرمین صاحب دکھی ہو رہے تھے کہ سو ارب ڈالر سے زیادہ قرض لیا گیا لیکن کہاں خرچ ہوا، کوئی خبر نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طبقے کو یہاں علاج معالجہ کی سہولت میسر نہیں اور اسپتالوں میں ایک بیڈ پہ دو دو مریض پڑے ہیں جبکہ ایک طبقہ ایسا ہے جسے زکام بھی ہو جائے تو علاج کے لیے ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ جو کچھ جاوید اقبال صاحب نے فرمایا اُس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اب باری تحریک انصاف کے لیڈروں اور عمران خان کی حکومت کی آنے والی ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ بھی وہی ہونے والا ہے جو ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ ہوا اور جس کے بارے میں بار ہا موجودہ حکومت کو وارننگ دی گئی کہ اگر نیب میں اصلاحات نہ لائی گئیں اور اس ادارے پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم نہ بنایا گیا تو پھر نیب اُسی طرح تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کے خلاف استعمال ہوگا جیسے نون لیگ اور پی پی پی کے خلاف استعمال ہوا۔ ابھی تک تو تحریک انصاف حکومت نیب کے ہاتھوں اپوزیشن کی چیخیں سن کر مزے لے رہی تھی لیکن اب خطرہ ہے کہ چیخیں حکومت اور حکومتی پارٹی کے رہنمائوں کی نکالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جو یقیناً قابلِ مذمت اقدام ہوگا۔ نون لیگ اور پی پی پی نے نیب قانون میں اصلاحات سے گریز کیا اور اب بھگت رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی یہی غلطی کی اور اِسے بھی بھگتنا پڑے گا۔ اگر گزرے کل میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، شیخ عمران الحق، فواد حسن فواد اور دوسرے کئی افراد کے خلاف کھوکھلے کیس بنا کر اُنہیں جیلوں میں ڈالا گیا تو پھر آنے والے کل میں یہی کچھ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے ساتھ بھی ہونے والا ہے، جس کا عندیہ جسٹس جاوید اقبال نے دے بھی دیا ہے۔ یہ سارا معاملہ گزشتہ کل بھی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت تھا اور یہ آئندہ بھی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہی رہے گا۔
مجھے نہیں معلوم اب ایسا کرنا ممکن ہے بھی یا نہیں لیکن اگر تحریک انصاف حکومت اب بھی سمجھ جائے تو نیب کے قانون میں بنیادی اصلاحات لانے کی کوشش کی جا سکتی ہے تاکہ اس ادارے کو کوئی غلط طور پر سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے خلاف استعمال نہ کر سکے۔ دیر کر دی تو پھر وقت آنے پر تحریک انصاف کے رہنمائوں اور وزیراعظم صاحب کو بھی معلوم پڑ جائے گا کہ کھوکھلے اور جھوٹے کیس کیسے بنائے جاتے ہیں، لوگوں کی پگڑیاں کیسے اچھالی جاتی ہیں، الزام کی بنیاد پر کیسے لوگوں کو کئی کئی مہینوں بلکہ سالوں تک جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مقدمات سالہا سال لٹکائے جاتے ہیں اور جب ملزموں کو بری کر دیا جاتا ہے تو نیب سے کوئی پوچھتا تک نہیں کہ جھوٹے اور کھوکھلے کیسوں کی بنیاد پر بے قصور افراد کو مہینوں، سالوں تک کیوں جیل میں قید رکھا اور اُن کی عزت کو تار تار کیا۔
ابھی تک وجہ معلوم نہیں ہو سکی کہ آیا نیب چیئرمین کا موڈ خود بدلا یا کسی نے اُنہیں نیا ٹاسک دے دیا ہے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر قاف لیگ بدل گئی، ایم کیو ایم کو حکومت میں خامیاں نظر آنے لگیں یہاں تک کہ جی ڈی اے نے حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ یہ ہوا، یہ تبدیلی اگر خود ساختہ ہے تو پھر اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اگر ہوا چلائی جا رہی ہے، تبدیلی کے پیچھے کوئی غیر جمہوری قوت ہے تو پھر میرا ووٹ تو عمران خان کے ساتھ ہی ہوگا چاہے وہ جیسے بھی اور کتنی بڑی دھاندلی کے ساتھ ہی کیوں نہ حکومت میں آئے ہوں۔