مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ اور دھرنا جن مطالبات کے ساتھ اسلام آباد میں آیا تھا، اُن کا حصول کیسے ہوگا، اس کی کوئی صورت ابھی نظر نہیں آ رہی۔
چند دن پہلے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مولانا کوئی فیس سیونگ چاہتے ہیں جس کے لیے چوہدری برادارن اُن سے مذکرات کر رہے ہیں لیکن گزشتہ روز کی اُن کی ایک ٹی وی چینلز سے بات سن کر لگا کہ وہ کافی غصے میں ہیں اور اسی لیے حکومت سے کہہ بھی دیا کہ مذاکرات کرنے ہیں تو استعفیٰ لائو۔ دوسری طرف نہ عمران خان استعفیٰ دے رہے ہیں، نہ ہی اسمبلیوں کو تحلیل کیے جانے کا کوئی چانس نظر آ رہا ہے۔
مولانا آئندہ کیا کرتے ہیں اس بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا کراچی سے اسلام آباد تک ایک بڑی تعداد میں اپنے سپورٹرز کو ساتھ لے کر آزادی مارچ کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن کا اصل ہدف وہی تھا جو اُنہوں نے بیان کیا یا وہ اس مارچ سے کچھ اور حاصل کرنا چاہتے تھے۔
مولانا کے بارے میں یہ تاثر بھی درست کہا جاتا ہے کہ وہ کچی جگہ پر کبھی پائوں نہیں رکھتے۔ دوسری طرف یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ مارچ اور دھرنے سے حکومت نہیں جاتی۔
پھر مولانا نے ایک ایسا احتجاج کیوں کیا اور اتنے بڑے مطالبات کیوں عوام کے سامنے رکھے جن کا پورا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا اور وہ بھی ایسی صورتحال میں جب کوئی مضبوط اشارہ بھی موجود نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی اشارے کی بنیاد پر ایسا سیاسی عمل سیاسی نظام اور سسٹم کے لیے مفید نہیں ہو سکتا چاہے اِن اشاروں کا شکار اُسے ہی کیوں نہ بنایا جا رہا ہو جو خود اشاروں پر چل کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوا ہو۔
بہرحال دیکھتے ہیں کہ مولانا اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں یا مولانا اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں۔ اگر مذاکرات معنی خیز ہوتے ہیں تو کن شرائط یا فیصلوں پر یہ معاملہ ختم ہو سکتا ہے، اس کا بھی کسی کو اندازہ نہیں۔
بظاہر مولانا قوم کو عمران خان کی حکومت سے آزادی دلوانے آئے تھے جو مقصد پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، وہ خود بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں اور اب اُن کے پاس پیچھے ہٹنے کو ایک انچ جگہ بھی نہیں۔ عمران خان سے آزادی اگر مولانا کے لیے ممکن نہیں تو مولانا اور بہت کچھ ایسا حاصل کر سکتے ہیں جو درحقیقت حکومت کو گھر بھیجنے سے بھی بڑا کام ہوگا۔
میں تو مولانا کو مشورہ دوں گا کہ عمران خان سے پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ پورا کروا دیں تو اس سے بڑا کارنامہ کوئی نہ ہوگا۔
حکومت کے خلاف اپنی تحریک کو روکنے کی شرائط طے کر لیں جن میں آئینِ پاکستان کی تمام اسلامی شقوں پر عملدرآمد کرنا، سود کا خاتمہ، شراب، جوا اور جسم فروشی کے پیشے پر مکمل پابندی، فحاشی و عریانیت کا خاتمہ، جیسا کہ آئین میں لکھا ہے پاکستان کے تمام قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا، تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلی کے ذریعے تربیت اور کردار سازی کو لازم قرار دینا وغیرہ شامل ہوں۔
ہو سکے تو پاکستان کے میڈیا کی آزادی (جو نہ مادر پدر آزادی ہو، نہ فحاشی و عریانیت کو پھیلانے کی) کے لیے بھی کوئی شرائط طے کر لیں ورنہ صحافت کی غلامی کا جو حال اس وقت ہے، اس میں مزید ابتری آتی جائے گی۔
چند روز قبل مولانا نے اپنے خطاب میں گمشدہ افراد کے المیے کا ذکر کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ لوگوں کو غائب کر دیا جاتا ہے اور سالہا سال تک اُن کے ماں باپ، بیوی بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو کچھ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ اُن کے پیارے کدھر گئے اور کس حال میں ہیں۔
مولانا نے درست کہا کہ کم از کم ایسے افراد کے خاندان کے لوگوں کو تو بتائیں کہ اُن کے پیاروں کو کس جرم کی بنا پر اُٹھایا اور غائب کیا گیا، اگر کسی نے جرم کیا ہے تو عدالت میں پیش کریں اور سزا دلوائیں۔ اچھا ہوگا کہ مولانا گمشدہ افراد (جن کا مسئلہ اُنہوں نے اپنی تقریر میں اٹھایا) کی آزادی کے لیے بھی کوئی شرط حکومت کے سامنے پیش کرکے اس انسانی المیے سے پاکستان کو آزاد کروا دیں۔
اگرچہ مشکلات بہت ہیں اور طاقتور طبقے حکومت اور سیاست پر اپنی گرفت کمزور کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں نظر آتے جس کی ہماری تاریخ بھی گواہ ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا مولانا پاکستان کے آئین اور قانون کی حکمرانی جس کی وہ بار بار بات کرتے ہیں، کو یقینی بنانے کے لیے کیا تجاویز پیش کرتے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی شرائط کو کاغذ میں لکھنا اور دستخط کرنے کو نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ ماضی میں پی پی پی دور میں ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا جس پر کبھی عمل نہ ہوا۔
مولانا سمجھدار آدمی ہیں اس لیے اُنہیں معاہدے کی صورت میں یقینی بنانا چاہیے کہ جو وعدے کیے جائیں، اُنہیں پورا بھی کیا جائے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ اپنی شرائط پر عملدرآمد کروانے کے لیے ایک نظام وضع کروائیں جس میں پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ اور فوج کو شامل کریں تاکہ آئین کی عملداری اور قانون کی حکمرانی پر سب کو ایک پیج پر لایا جا سکے۔
بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ مولانا آگے بڑھیں، ڈی چوک جائیں اور ایک بار پھر 2014ء کی تاریخ دہرائیں۔
اگرچہ پُرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے لیکن جس اصول (کہ جتھوں کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ دھرنوں کے ذریعے وزیراعظم کو چلتا کریں ) کی 2014ء کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے وقت بات کی جاتی تھی اُس کی پاسداری میں ہی سب کی خیر ہے۔ عمران خان کا دھرنا اور اُس دھرنے کے دوران جو ہم نے دیکھا، وہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث تو ہو سکتا ہے لیکن اُس کا دفاع یا اُس پر فخر نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا کا مارچ اور دھرنا اس لحاظ سے اچھا رہا کہ اس میں ابھی تک کسی نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا، کوئی توڑ پھوڑ، کوئی تشدد نہیں ہوا، سرکاری یا نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ امید ہے کہ یہ دھرنا پُرامن ہی رہے گا اور پُرامن انداز میں ہی اس کا اختتام ہو گا۔