اپوزیشن نے وزیر اعظم پر الزام عائد کیا ہے کہ خان صاحب میں منافق کی تینوں نشانیاں موجود ہیں۔ اپوزیشن کی اس رائے سے کامل اتفاق تو نہیں کیاجا سکتا لیکن پاکستان کے کون سے مین سٹریم سیاستدان ہیں جن میں یہ نشانیاں بدرجہ اتم موجود نہیں ہیں۔ ایک مقولے کے مطابق خیرات ہمیشہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کو ہی لیں، اپنے سیاسی کیریئر کے دوران جتنی قلابازیاں انہوں نے لگائی ہیں شاید ہی کوئی دوسرا سیاستدان ان کا مقابلہ کر سکے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کوئی زیادہ منافق ہے اور کوئی کم۔ اس وقت تمام سیاستدان پاک دامن ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر جسے بھی موقع ملا اس نے خوب ہاتھ رنگے ہیں۔ میاں نواز شریف کو ہی لیجئے، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، اکانومی کو بلندیوں کی طرف لے گئے، وطن عزیز میں ایسی خوشحالی کا دور آیا کہ جوان سے پہلے نہیں تھا، ملک اچھی گورننس کی نئی حدود کو چھو گیا، یہ دعوے بڑھک کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن اشیائے خو رونوش کی ہوشربا قیمتیں، اجناس کی قلت میں حال ہی اضا فہ، یہ کون سے پاکستان میں ہوئیں کیونکہ جس پاکستان کا ذکر سابق وزیراعظم کرتے ہیں اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر۔
ہر لیڈ ریہ کہتے نہیں تھکتا کہ مجھ سے بڑا عوام کا ہمدرد کوئی نہیں ہے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہو سکا۔ عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ عوام کے حصے میں بال ہیں نہ دانے لیکن وزیر اعظم کا پھر بھی دعویٰ ہے کہ عوام اپوزیشن کے نوسربازوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے جن کا دعویٰ تھا کہ ہم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر گئے، ملک کے خزانے کو خالی کر کے چلے گئے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ملک کا خزانہ روزانہ کی بنیا د پر خالی ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم سمیت حکمرانوں اور اپوزیشن کو عوام کی حالت زار سے کوئی خا ص سروکا ر نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھا ڑ کرتے ہیں کہ ان کے مخالفین نے بدانتظامی اور کرپشن کے ذریعے خزانہ لوٹ لیا ہے لیکن حقیقت حال تو یہی ہے کہ سب نے مل کر یہ کام کیا ہے۔ البتہ خان صا حب پر زیادہ افسوس ہے، وہ تو نئے پاکستان کے داعی ہیں، عملی طور پر جس پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنی چاہیے تھیں، وہ کہیں نظر نہیں آرہا۔
یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ خان صاحب نیا پاکستان بنانے میں انتہائی مخلص ہیں لیکن عملی طور پر ان سے ایسا ہو نہیں پا رہا، گورننس کے مسلمہ اصولوں کو طاق نسیان میں رکھ کر نت نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ عوام اوراپو زیشن کو آن بورڈ لینے کی رتی برابر بھی کو شش نہیں کی گئی۔ لاکھوں افراد کو گھر مہیا کرنے کے دعوے اور وعدے پورے ہو تے نظر نہیں آ رہے اور ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ یہی حال عوام کو سستے داموں روٹی اور دیگر اشیائے ضرورت کی فراہمی کا ہے، اب کوئی اس پر بات ہی نہیں کرتا۔ اس کے باوجود کھلاڑی ایک ہی راگ الاپے جا رہے ہیں چور سب کچھ کھا گئے، ہم ان کو چھوڑیں گے نہیں کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ اس تمام صورتحال میں عوام کا کچومر نکل گیا ہے۔
وزیر اعظم اپنی پہلی ٹرم کی نصف مدت پوری کر چکے ہیں اور لگتا ہے باقی مدت بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے گزر جائے گی، اتنے میں عام انتخابات آ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ خان صاحب اگلا الیکشن کون سی کا رکردگی پر لڑیں گے اور جیتیں گے۔ تحریک انصاف کے مطابق اس کے حسن کارکردگی کی بنیا د پر اگلا الیکشن بھی اسی کا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات اس لحاظ سے متنازعہ قرار دیئے جاتے ہیں کہ پوری اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے خلاف سینہ سپر ہو گئی تھی۔ موجودہ حالات میں بکھری ہوئی اپوزیشن بھی اکٹھی ہو رہی ہے، اپوزیشن کے اس الزام میں خواہ کتنی بھی حقیقت ہو کہ2018 کے الیکشن میں خلائی مخلوق، نے کام دکھایا، اس کیلئے اگلے انتخابات میں یہ سوانگ رچانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
خان صاحب کے روز اول سے اس بیانیے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو بھاگنے نہیں دوں گا میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آ ئی، یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن نے بھی شفافیت اور گورننس کے کوئی جھنڈے نہیں گاڑے۔ تاہم گزشتہ دو حکومتوں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی سے موازنہ کیا جائے تو اتنی جوتیوں میں دال نہیں بٹ رہی تھی جتنی آج بٹ رہی ہے۔ خان صاحب خالی خولی دعوؤں کے ساتھ لیڈری کے جوہر بھی دکھائیں۔ قوم کو گائیڈ کریں اور جس حسن کارکردگی کے دعوید ار ہیں اس کا عملی مظاہرہ بھی کر کے دکھائیں۔ اپوزیشن کورسوا کرنے کی گردان کے نتیجے میں چوہان اور گل جیسے کردارجن کی اپنی کوئی ساکھ نہیں ہے وہ خان صاحب کو کیا الیکشن جتوائیں گے۔ وقت آ گیاہے کہ بجائے شیخ چلی کے کر دار بننے کے حسن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گورننس کے جوہر دکھائیں جن سے عوام کا بھی بھلا ہو اورخود ان کا بھی۔