حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان قومی اسمبلی میں بقائے باہمی کی فضا قائم کر کے ایک مکدر ماحول کو نسبتاً خوشگوار بنانے اورغنڈہ گردی کے بجائے ایک دوسرے کی بات اطمینان سننے کی امید، امید موہوم ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں ہونے والی انڈرسٹینڈنگ کے تحت جمعہ کو مخالفین کی تقریریں اطمینان سے سنی گئیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ تقریروں میں معیار کا خیال نہیں رکھا گیا بلکہ وزیر توانائی حماد اظہر نے اپنی تقریر میں بلاول بھٹو پر رکیک حملے کیے، ان کے انگریزی بولنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ٹیڑھے منہ سے انگریزی بولنے سے کرپشن پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا، نیز سونے پہ سہاگہ انہیں نابالغ بھی قرار دے دیا۔ دوسری طرف سے یہ کہا گیا کہ مراد سعید بندر کی طرح ناچتے ہوئے ڈیسک پر چڑھ کر گالیاں دے رہے تھے۔ بھلا ان باتوں کا بجٹ سے کیا تعلق؟ کسی حد تک حکومت الرجک ہے کہ سرکاری میڈیا جس کی ایوان کی کوریج لائیو دکھانے کی مناپلی ہے اس نے بلاول بھٹو کی تقریر سنسرکر دی۔ یہاں اپوزیشن کی طرف سے سپیکر کا رول جانبدارانہ قرار دیا گیاکیونکہ سپیکر کاہی استحقاق ہے کہ وہ ایوان میں کس جملے کو حذف کرتے ہیں، ظاہر ہے پی ٹی وی نے ایسا سپیکر کی رضامندی سے ہی کیا ہوگا کیونکہ سرکاری ٹیلی ویڑن تو حکم کا غلام ہے وہ کیونکر بغیر حاکم اعلیٰ کی بات پر من و عن عمل کرنے کے بجائے رد کر سکتا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس نئے ماحول میں اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا گیا، اس پر مستزاد یہ کہ جیسے ہی بلاول بھٹو نے اپنی تقریر ختم کی وہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرح ایوان سے اٹھ کر چلے گئے، جسے میڈیا نے واک آئوٹ کا رنگ دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومتی بینچ کی باتیں بھی خندہ پیشانی سے سنی جاتیں۔ غالباً اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے سربراہ کو یہ گلہ ضرور ہوگا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین اور وزرات خزانہ کے اعلیٰ حکام ایوان میں نہیں آئے حالانکہ روایت یہی ہے کہ وزارت خزانہ جس کے پیش کیے گئے بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث ہوگی اس کے ذمہ دار تو وہاں موجود رہتے ہیں تاکہ ایوان میں ڈسکس ہونے والے نکات کو نوٹ کر لیں۔ اس کی نشاندہی اپوزیشن کی جانب سے کی بھی گئی۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کچھ تجاویز بھی دیں جبکہ بلاول بھٹو نے اپنا زیادہ وقت گزشتہ تین برسوں میں پی ٹی آئی کے اقتدار کے دوران غریبوں بلکہ قوم کا کچومر نکالنے کے حوالے سے حکمرانوں کے لتے لینے پر صرف کیا، جبکہ حکمران جماعت کے ارکان نے اپنی اصلاحات کے ڈھنڈورے پیٹے اور تمام مسائل کی جڑ مسلم لیگ)ن(کی سابق حکومت کو قرار دیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس ماحول کو دوبارہ مکدر کرنے کے بجائے دونوں جانب سے اصلاح احوال کی کوشش کی جاتی۔ ایک وجہ یہ بنی کہ اپوزیشن اور کچھ وفاقی وزرا کے مطابق جوا کیس بل ایک دن میں کارروائی بلڈوز کر کے قومی اسمبلی سے پاس کیے گئے اور جس پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی لانے کا اعلان کیا گیا، ان بلوں پر اپوزیشن کی مشاورت سے نظر ثانی کی جائے گی، تاہم یہ وعدہ وفا ہوتا نظر نہیں آتا اس پر ظاہر ہے اپوزیشن برہم ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے مثبت تجویز دی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اے پی سی بلائی جائے اور انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط بھی لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات کی روشنی میں حکومت کو انتخابی اصلاحات پر از خود فیصلہ کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن اور اپوزیشن کو آن بورڈ لے کر چلنا چاہیے۔ اے پی سی میں طے پانے والے متفقہ پلان کو پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جاسکتاہے۔ واضح رہے کہ حکومت آئندہ عام انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام یکطرفہ طور پر نافذ کرنے پر مصرہے لیکن اسے الیکشن کمیشن بھی مسترد کر چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی اپنی پسند نا پسند قوم پر مسلط کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے اور ظاہر ہے عدلیہ میں بھی یہ معاملات چیلنج ہونگے۔
بلوچستان اسمبلی میں بھی شدید ہنگامہ آرائی اور وزیر اعلیٰ تک کی ٹھکائی کرنے کی کوششوں کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر اپوزیشن نے اسمبلی کے دروازے بند کر دئیے جس کے بعد اسمبلی ہال کے اردگرد کا علاقہ شدید ہنگامہ آرائی کا شکار رہا۔ پولیس نے بکتر بند گاڑی سے اسمبلی کا دروازہ توڑ کر وزیر اعلیٰ اور حکومتی ارکان کو اسمبلی ہال میں داخلکیا۔ اس مکدرماحول میں بغیر کسی مفاہمت کے پارلیمانی نظام کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت تو کیا یہاں ایوانوں میں بھی جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ جیت بالآخر ہارڈ لائینزر اور جمہوریت پر یقین نہ رکھنے والے عناصر کی ہوگی جو چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کوئی باہمی ڈائیلاگ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی اداروں کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ یا دیگر ادارے انہیں حکومتی حلقے رگیدنے سے باز نہیں آتے۔ یوں لگتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی صورتحال کوبعض تجزیہ نگار 1991ء میں سابق سوویت یونین کی صورتحال سے غلط طور پر تشبیہ دے رہے ہیں۔ خاکم بدہن، ان کا دعویٰ ہے کہ اگر سابق سوویت یونین امریکہ کے مقابلے میں فوج، میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ لیس ہونے کے باوجود اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے شکست سے دوچار ہو سکتا ہے تو پاکستان کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، اس لئے اسے اپنے اندرونی حالات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان بظاہر ایک کامیاب جمہوری لیڈرکے طور پر اپنا نام پیدا کرتے ہیں یا سوویت یونین کے آخری صدورگورباچوف اور بورس یلسن کے زمرے میں لکھوانا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور ہمارے سیاستدان ہوش کے ناخن لیں گے۔ قائد اعظم کا پاکستان دشمنوں کی توقعات کے برعکس ہمیشہ قائم رہے گا لیکن اس کے لیے سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ یہاں جمہوریت کے نام پر ہر روز جمہوریت کا ہی گلا کاٹا جاتا ہے یہی سلوک نہ جانے کیوں میڈیا کے ساتھ روا رکھاجا رہا ہے۔ آئے روز صحافیوں کی ٹھکائی یا انہیں غائب کرانے کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور صحافتی تنظیموں کے احتجاج پر کان نہیں دھرے جا رہے۔ اس صورتحال کا مداوا کرنے کے لیے خان صاحب کو "کرپشن کرپشن اور این آر او نہیں دوں گا" کی رٹ لگائے رکھنے کے بجائے خود حزب اختلاف کو آن بورڈ لینا ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم عمران خان بجٹ اجلاس میں خود آتے اور نہ صرف اپوزیشن لیڈر کی تقریر خندہ پیشانی سے سنتے بلکہ اپنے چیمبر میں بیٹھ کر حزب اختلاف اور خود اپنی پارٹی کے ناراض ارکان کو انگیج کرتے لیکن فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ سسٹم ان کی انا کی نذر ہو رہا ہے۔