Ahsan Iqbal Per Hamla Sub Ke Lye Lamha Fikria
Arif Nizami93
وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے نے کئی سوالات کو جنم دیدیا ہے۔ سب سے پہلے تو وزیر داخلہ پر کئے گئے بزدلانہ حملے کی ٹائمنگ ہے۔ عام انتخابات کے متوقع اعلان سے عین چند ہفتے قبل اس قسم کی سفاکانہ واردات الیکشن کے پرامن انعقاد کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ شاید متوقع خطرے کو بھانپتے ہوئے صدر پاکستان، آرمی چیف اور وزیراعظم کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے اس افسوسناک واقعہ کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یقینا انھیں یہ نظر آ رہا ہے کہ اس ماحول میں اس وقت جاری انتخابی مہم جوئی پراز خطر ہو گی۔ وطن عزیز میں دہشت گردی سے بھی زیادہ تشویشناک رجحان بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا ہے جس کا شکار ہوتے ہوتے احسن اقبال خوش قسمتی سے بچ گئے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی تحریک طالبان پاکستان کی دھمکیوں کی بنا پر آزادانہ طریقے سے اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکی تھی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو عام انتخابات سے چند روز قبل اغوا کر لیا گیا۔ انھیں اْس وقت اغوا کیا گیا جب وہ ملتان کے مضافات میں ایک انتخابی ریلی میں شرکت کر رہے تھے۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو اور کو چیئرمین آصف زرداری ویسے اب بھی اپنی عوامی مصروفیات میں بڑی احتیاط سے قدم رکھتے ہیں۔ اس بارے میں مسلم لیگ (ن) کو گزشتہ انتخابات میں ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ وہ تحریک طالبان کے حامی اور معیب سمجھے جاتے تھے۔ میاں نوازشریف کے برسراقتدار آنے کے بعد بظاہر لائن تھوڑی سی تبدیل ہوئی لیکن مرغ کی ٹانگ وہیں کی وہیں رہی۔ وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کی قیادت میں مذاکراتی ٹیم نے تحریک طالبان سے کیا مذاکرات کرنے تھے۔ اسی بنا پر جب نومبر 2013ء میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا تو اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے یہ نوحا پڑھا کہ ڈرون حملہ دراصل امن مذاکرات پر ہوا ہے۔ یقینا دہشت گردوں سے مذاکرات کس طرح ہو سکتے ہیں؟ ۔ انھیں پاک فوج نے سویلین حکومت کے ابتدائی طور پر طوہا ً وکرہاً تعاون کے ذریعے ہی شکست فاش دی۔ اس وقت تو مسلم لیگ (ن) حکمران جماعت کو دہشت گردوں سے براہ راست نسبتا ًکم خطرہ تھا لیکن یہ خطرہ اب کسی اور شکل میں آ شکار ہو رہا ہے۔ 2014ء میں پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، لگتا ہے اب معاملات کسی اور سمت کا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ اگرچہ تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی نے دو ٹوک الفاظ میں تردید کی ہے کہ ان کی تنظیم کا احسن اقبال پر قاتلانہ حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ وزیر داخلہ پر حملہ کسی ذاتی عداوت یا رنجش پر نہیں ہوا بلکہ مذہبی انتہا پسندی کا ہی شاخسانہ ہے۔ وزیرداخلہ پر حملہ کرنے والے ملزم عابد حسین نے اپنے اعترافی بیان میں خود اقرارکیا ہے کہ اس نے متذکرہ حملہ ختم نبوت کے معاملے پر کیا ہے۔ تاہم احسن اقبال ایک سیاستدان ہیں اور مقامی طور پر ان کی سیاسی رقابتیں بھی ہیں۔ لہٰذا کوئی حتمی بات تمام پہلوؤں سے تحقیقات کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لئے پانچ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جس میں آئی بی اور آئی ایس آئی کا ایک ایک نمائندہ بھی شامل ہو گا۔ لیکن متذکرہ بالا واقعہ کو کسی بھی پہلو سے دیکھا جائے، نیشنل ایکشن پلان کے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے جو 20 نکات ہیں ان پر بہت کم عمل ہوا ہے۔ شروع شروع میں تو سویلین فوجی قیادت کی اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے تھے۔ اب لگتا ہے کہ اس حوالے سے سبھی خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔ میاں نوازشریف جو مسلم لیگ (ن) کے قائد بھی ہیں کا حقائق کی جزئیات میں جائے بغیر یہ بیان دینا کہ ایک ایک ہزار روپے بانٹنے والوں سے پوچھا جائے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا، محل نظر ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے حال ہی میں سیاستدانوں کی سکیورٹی واپس لیے جانے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ احسن اقبال پر حملے کے وقت سکیورٹی کہاں تھی؟ ۔ واضح رہے کہ میڈیا کی خبروں کی مطابق فیض آباد کے دھرنے کے خاتمے پر رینجرز کا ایک افسر مبینہ طور پر مظاہرین کو لفافوں میں بند ایک ایک ہزار روپے دے رہا تھا جس پر بعض حلقوں میں کافی شوروغوغا بھی اٹھا تھا۔ یقینا انتہا پسندی اور دہشتگردی ایک ایسا ناسور ہے جس کی آگ کی لپیٹ میں آ کر سب کچھ بھسم ہو سکتا ہے۔ یہ بات خاصی حد تک درست ہے کہ امن عامہ کی موجودہ صورتحال جس میں انتہا پسند کھل کھیل رہے ہیں اور دہشت گرد بھی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو "ہائی پروفائل"سیاسی نمائندوں اور سرکاری اہلکاروں کی سکیورٹی کم کرنے کے اپنے فیصلے پر فوری نظرثانی کرنی چاہئے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو حالات پر محض رننگ کمنٹری کرنے کے بجائے فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر عام انتخابات کو بروقت، پر امن اور تشدد سے پاک کرنے کے حوالے سے فوری اقدامات کرنے چاہئیں بصورت دیگر ایسے حالات جن میں امیدوار اور نہ ہی ووٹرز اپنے آپ کو محفوظ تصور کرینگے انتخابات ایک سنگین مذاق بن کر رہ جائیں گے۔ دوسری طرف احسن اقبال کے پیش رو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک پر یس کا نفرنس میں اپنی ہی جماعت پر خوب برسے۔ انھوں نے دوبارہ یہ الزام لگایا کہ میاں نوازشریف خوشامدیوں کے نرغے میں ہیں لیکن میں کسی کی جوتیاں اٹھانے والا نہیں ہوں اور نہ ہی سیدھی کرتا ہوں۔ انھوں نے دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے کہ مسلم لیگ کے 25بانی ارکان میں وہ بھی شامل تھے۔ اب ان میں سے میاں نوازشریف کے علاوہ وہ ہی رہ گئے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ وہ کسی اور جماعت میں نہیں جا رہے اور ان کا ماضی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ پارٹی کے وفادار ہیں، مسلم لیگ (ن) کے موجودہ 70 فیصد سے زیادہ رہنماؤں نے پارٹی چھوڑی اور پھر جوائن کی۔ چوہدری صاحب نے یہ طعنہ بھی دیا کہ حکمران جماعت کی سینیٹ کی ٹکٹیں ان لوگوں کو دی گئیں جو مشرف کی باقیات تھیں یا جو میاں صاحب کے ذاتی ملازم ہیں۔ چوہدری صاحب کی کسی بھی بات سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔ میاں نوازشریف جن پر آج کل جمہوریت کا بخار طاری ہے انھیں کم ازکم اپنے رویوں، مشاورت اور جماعت کے اندر جمہوریت کا احیا کرنا چاہیے کیونکہ انھوں نے اپنے حالیہ دور حکمرانی میں کم از کم اپنی جماعت کے اندر جمہوری رویوں کا ثبوت نہیں دیا۔