جہاں ایک طرف پاکستان اور بھارت کے 2003 کے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کرنے کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے، وہیں نومنتخب امریکی جوبائیڈن انتظامیہ نے مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک کو براہ راست مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پر ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا ہے اور لائن آف کنٹرول اور دیگر تمام سیکٹرز کی صورتحال کا آزاد، اچھے اور خوشگوار ماحول میں جائزہ لیا، فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی طرح کی غیر متوقع صورتحال اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے موجودہ ہاٹ لائن رابطے کے طریقہ کار اور بارڈر فلیگ میٹنگز کا استعمال کیا جائے گا۔ اس معاہدے کو فطری طور پر امریکہ اور اقوام متحدہ نے سراہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے بیان میں اس اقدام کو انتہائی خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں سیکرٹری جنرل نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کشمیر کی طرح افغانستان اور دیگر معاملات جن میں اقوام متحدہ کی بھی دلچسپی ہے ایسا ہی مثبت رویہ اختیار کرے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند برسوں میں لائن آف کنٹرول پر حالات انتہائی گھمبیر ہوگئے تھے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2014 سے 2020 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، 2019 میں سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوئیں جبکہ 2018 میں سب سے زیادہ سویلین اموات 377 ہوئیں۔ گزشتہ برس 3 ہزار 97 جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی جس میں 28 معصوم افراد شہید اور 257 زخمی ہوئے۔ لہٰذا اس پیشرفت کو عمومی طور پر خوش آئند ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص یہ ایل او سی کے قریب رہنے والے مظلوم کشمیریوں کے لیے اچھی خبر ہوگی۔ تاہم محض ایسے اقدامات سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں اس کے لیے عملی اقدمات بھی کرنا ہونگے۔
جب سے بھارت میں نریندرمودی کی حکومت آئی ہے، پاکستان اور بھارت کے تعلقات خراب سے خراب تر ہی ہوتے چلے گئے۔ اور دونوں ملکوں میں دوطرفہ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا ملٹی لیٹرل سطح پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ فروری2019 میں پلوامہ واقعہ کے ایک سال بعد بھارتی فضائیہ کو پاکستان کے خلاف جنگی جارحیت میں منہ کی کھانا پڑی جس کے نتیجے میں تعلقات مزید ابتر ہوگئے۔ پاکستان اور بھارتی سفارتکاروں کی عالمی سطح پر مدبھیڑ بھی روٹین کا حصہ بن گئی۔ گویا کہ دنیا نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی خرابی کے حوالے سے دونوں ملکوں کو رائٹ آف کر دیا۔ لہٰذا اس پیش رفت کا ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح ہی خیرمقدم ہی کیا گیا۔ اندرون و بیرون ملک یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ آخر مصالحت کنندہ کون ہے جس نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات کو اس حد تک سنبھالا کہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نہ صرف بات چیت کے لیے تیار ہوگئے بلکہ مثبت پیشرفت پر بھی متفق ہوئے۔ ان قیاس آرائیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور ان کے بھارتی ہم منصب اجیت دول کے درمیان کچھ معاملات طے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں فوجوں کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ ہوگیا۔ اگرچہ معید یوسف نے اس کی تردید کی ہے لیکن اس امکان کو یکسر رد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ نے برف پگھلانے کے لیے کوئی رول ادا کیا ہے۔
واضح رہے کہ جوبائیڈن جب نائب صدر تھے تو وہ امریکی صدر باراک اوباماکے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے کلیدی رول ادا کرتے رہے اور وہ اس حوالے سے پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں گویا کہ وہ اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح پاکستان اور بھارت کی پیچیدگیوں سے نابلد نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واضح طور پر کہا کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست رابطوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ہم اس کے حامی ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم ہونی چاہیے اور ہم واضح طور پر ان دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہیں، جو پْر تشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔ میڈیا کے کچھ لوگوں کے اس سوال پر کہ جوبائیڈن اس معاملے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کرائیں گے؟ ۔ ترجمان نے امریکہ کی پالیسی کا اعادہ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ پاکستان اور بھارت پر زور دیتی رہے گی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے براہ راست بات چیت کریں۔ گویا کہ کچھ لوگوں کو اگر یہ خوش فہمی ہے کہ امریکہ بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی دبائو ڈالے گا تو توقع عبث ہوگی کیونکہ بات وہیں آکر رکتی ہے کہ بھارت اور امریکہ ایک دہائی سے چین کے خلاف سٹریٹجک اتحادی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے چین سے دفاعی، تجارتی شعبوں اور سی پیک کے معاہدے امریکہ اور بھارت کو سخت کھٹکتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت اور چین میں سرحدی تنازع پر حال ہی میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن بھارت ڈھٹائی سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے موقف پر قائم ہے۔ امریکہ ہو یا چین یا کوئی اور ملک وہ اس میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتااور چاہتا ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے بازومروڑے اور دنیا میں اس کی بات بھی کوئی نہ سنے۔
اس خبر کے ساتھ کہ پاکستان ایک بار پھر ایف اے ٹی ایف کی کڑی شرائط میں سے بعض کو پورا نہیں کر سکا اور اسے پھر گرے لسٹ میں رکھا گیا۔ پاکستان)جون 2018ء (ڈھائی سال کے عرصے سے مسلسل گرے لسٹ پر ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے دعویٰ کیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے نوے فیصد مطالبے پورے کر دئیے گئے ہیں اور باقی پر بھی جون تک عملدرآمد کر دیا جائے گا۔ بقول وزیرموصوف کے ایف اے ٹی ایف کی 27 میں سے 24 فرمائشیں پوری کر دی گئی ہیں اور باقی تین بھی جون تک پوری ہوجائیں گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے بلیک لسٹ میں ڈالنے کے خدشات دور ہوگئے ہیں۔ واضح رہے حماد اظہر ایف اے ٹی ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی کمیٹی کی سربراہی کرتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے امید دلا کر ہمیں مسلسل گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ ہر بار وزیرموصوف اس قسم کی طفل تسلیاں دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوویڈ19 کے باوجود وہ ایف اے ٹی ایف کومسلسل معلومات دیتے رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ جیسے سوال میں ماضی میں ہونے والے فری فار آل روئیے کی بنا پر پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں تاخیر ہونا کسی حد تک فطری بھی ہے۔ تاہم اس ضمن بھارت اتنی غیر ضروری تاخیرسے اپنا الو سیدھا کررہاہے جس میں وہ کامیاب ہے۔ حماد اظہر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ قرار دلوانے کے لیے بھارت کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ وہ سالہا سال سے پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے کا منفی پراپیگنڈاکر رہا ہے۔ پاکستان کا گرے لسٹ پر رہنا اور بلیک لسٹ کی تلوار سر پر لٹکتے رہنا اس کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔