اس کالم کے تحریر ہونے تک امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق جوزف بائیڈن کے امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ امریکی صدارتی الیکشن کی اتنی قدیم تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنا کانٹے کا اور قریب ترین مقابلہ ہوا ہو۔ الیکشن کے رو زاور اگلے دن بھی کوئی امریکی شہری یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اگلا صدر کون ہو گا۔ ابتدائی طور پر یہی کہا جا رہا تھا کہ جوبائیڈن الیکشن جیت جائیں گے لیکن اس گھمسان کے مقا بلے میں سیاسی پوزیشنیں کئی بار بدلیں۔ جن ناقدین کا خیال تھا کہ ٹرمپ جیسی لاابالی طبیعت والی شخصیت کو ان کے مخالفین بڑی آسانی سے مات دے دیں گے انہیں اپنے الفاظ واپس لینے پڑے حتیٰ کہ ایسا بھی لگا کہ بائیڈ ن بازی ہار گئے ہیں۔ اسی بنا پر انہوں نے پولنگ کے روز دعویٰ کیا کہ میں جیت رہا ہوں جبکہ ٹرمپ نے کہا میں جیت چکا ہوں۔ ٹرمپ نے الیکشن نتائج کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ چند الیکٹورل ووٹوں کے فرق سے کئی بار ایسا لگتا تھا کہ الیکشن کاپانسا پلٹ سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹر مپ کی لاابالی طبیعت، اکھڑپن اور پاگل پن میں ایک انتہائی زیرک سیاستدان چھپا ہواہے، ٹرمپ کی حکمت عملی بظاہرسادالیکن انتہائی گھاگ پن پر مبنی تھی۔ ٹرمپ امریکہ کے ان شہریوں کی نمائندگی کر رہے تھے جن کی تعداد شاید پڑھے لکھے امریکیوں سے زیادہ ہو کیونکہ زیادہ تر امریکی اعلیٰ تعلیم یا فتہ ہیں اورنہ ہی ریاستی امور اورمسائل کے حوالے سے عام پاکستانیوں کی طرح فکرمند رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جانے والے امریکی صدر کا عام شہریوں کی نبض پر ہاتھ ہے۔
ٹرمپ نے گزشتہ انتخابات میں ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ عام امریکی شہری زیادہ پڑھالکھا ہے اور نہ ہی وہ لمبی چوڑی فلسفیانہ باتوں پر یقین رکھتا ہے، اس کا معاملہ تو سیدھا ساداہے کہ اس کی جیب میں ہر ماہ کتنے ڈالر آتے ہیں۔ مزید یہ کہ اشیائے ضرورت اس کی پہنچ سے باہر تو نہیں ہوتی جا رہیں کیونکہ امریکی معیشت میں قریباً ہر چیز ادھا ر پر خریدی جاتی ہے۔ شرح سود، مارگیج اور قیمتیں ایک حد سے نہ بڑھناہی ان کے نزدیک معیشت کی کامیابی کی معراج ہے۔ انہی عوامل کی بنا پر دیکھا جائے تو امریکی شہری ہوں یا پاکستانی سب کے مسائل ملتے جلتے ہیں، سب کا مسئلہ دال روٹی کا ہے۔ امریکہ کا شمار چونکہ معیار زندگی کے حوالے سے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں فی کس آمدنی پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ضروریات زندگی کی ما نگ بھی اس تناسب سے زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔
پاکستان میں روایتی طور پر ہر امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا صدر ہمارے لیے بہتر ہے یاری پبلکن؟ ۔ روایتی طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ ری پبلکن پارٹی کی پالیسیاں پاکستان کے لیے ممدومعاون ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر حالیہ دہائیوں میں دیکھا گیا ہے کہ ری پبلکن پارٹی اور نہ ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ پاکستان کا ہنی مون چل سکا ہے۔ پہلے مسائل کی نوعیت یہ ہوتی تھی کہ امریکہ پاکستان کو آسان قسطوں پر کتنے قرضے اور کتنی امداد دے گا۔ برسہا برس تک مختلف پاکستانی لیڈروں نے قرضوں کے نام پر اربوں ڈالر اینٹھے۔ جب پچاس کی دہائی میں کوریا کے ساتھ جنگ چھڑی تو پاکستان کے وارے نیارے ہو گئے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں سیٹو اور سینٹو کے ممبر کے طور پر پاکستان امریکہ کا باقاعد ہ حلیف بن گیا۔ افغانستان کی خانہ جنگی اور سوویت یونین کی لشکر کشی جسے روسی ریچھ سے تشبیہ دی جاتی ہے کے دوران امریکہ نے پاکستان کے وارے نیارے کر دیئے لیکن اس کے باوجود اس وقت کے فوجی آمروں اور ان کے سویلین حواریوں نے امریکی ڈالروں سے خوب ہاتھ رنگے لیکن پاکستانی عوام کے حصے کچھ نہیں آیا لیکن اب دنیا بد ل چکی ہے۔
نیو ورلڈ آرڈر میں امریکہ پاکستان سمیت سب ممالک کے سا تھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سودے بازی کے ذریعے معاملات طے کرتاہے۔ مثال کے طور پر آجکل پاکستان آئی ایم ایف کی کڑی ترین شرائط میں جکڑا ہواہے، جب تک ہم آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کریں گے امریکی مدد حاصل نہیں ہو گی۔ پاکستان کا حال منشیا ت کے عادی افراد جیسا ہے، منشیا ت حاصل کرنے کے لیے ڈونر ممالک کی شرائط بھی پوری کرنا ہوتی ہیں۔ اب امریکی امداد کا نشہ ٹوٹ رہا ہے کیونکہ مزید غیر ملکی امداد کے نشے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہی نہیں ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضو ں کی قسط کی ادائیگی کے لیے بھی ہما رے پاس پیسے نہیں ہیں۔ بحث کی خا طر تو یہ کہ امریکہ میں جو بھی حکومت آتی ہے اس کے عزائم پر غورتو ضرور کرنا چاہیے لیکن جب تک ہم اپنی اقتصادی حالت بہتر نہیں کریں گے ہماری کوئی نہیں سنے گا، اس کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑاہونا انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک کے ساتھ خودداری اور برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنا بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے بھی کوئی مربوط حکمت عملی بنانا ہو گی۔ ایک امریکی محاورے کے مطابق مفت لنچ کوئی نہیں کھلاتا، بین الاقوامی تعلقات میں معاملات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہی آگے بڑھتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان امریکہ کے دورے کی دعوت پر ہی لٹو ہوجاتے ہیں حالانکہ خالی دوروں کا کوئی فائدہ نہیں جب تک باہمی مفادات کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات استوار نہ کئے جائیں۔