Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Buland Siyasi Paare Mein Bills Manzoor

Buland Siyasi Paare Mein Bills Manzoor

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہونے کے باوجود ایف اے ٹی ایف سے متعلق 2 بل، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2020ء اور اقوامِ متحدہ (سکیورٹی کونسل) ترمیمی بل 2020ء قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس کرا لئے گئے تاہم نیب قوانین میں ترمیم کے لیے اپوزیشن کی پینتیس تجاویز حکمران جماعت نے مسترد کردیں۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا استدلال تھا کہ اپوزیشن جو ترمیم چاہتی ہے وہ تحریک انصاف کے لیے ممکن نہیں کیونکہ احتساب ہمارا ایجنڈا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن کی تجاویز پر عمل کیا گیا تو احتساب کا ادارہ بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ اپوزیشن کی بعض تجاویز جیسا کہ ایک ارب سے زائد کی کرپشن نیب کے دائرہ کار میں آنی چاہیے قابل عمل نہیں ہے اور جیسا کہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کی منطق کے مطابق 99 کروڑ99 لاکھ کی کرپشن کا کیس نیب کے دائرہ کار میں نہیں آنا چاہیے لیکن حکومتی جماعت کے اس موقف یہ کہ وہ ہر حالت میں احتساب کرنا چاہتی ہے اور نیب کے اس قانون پر انحصار کرنا زمینی حقائق سے صرف نظر برتنے کے مترادف ہے۔

احتساب کے موجودہ قانون کے متعلق سپریم کورٹ کے خواجہ برادران کے 88 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے کے بعد نیب کی ساکھ مجموعی طور پر متاثر ہوئی ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے اس میں نیب کے بارے میں جو باتیں لکھی ہیں وہ سب کے علم میں ہیں کہ اس ادارے کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ جنرل پرویز مشرف نے اسی مقصد کے لئے اس کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ویسے بھی یہ قانون جس کے تحت ملزم روز اول سے ہی مجرم گردانا جاتا ہے اور ایک بار اسے جیل میں ڈال دیا گیا تو وہ نیب کی حراست میں پیشیاں بھگتتا رہتا ہے۔ قتل کے ملزم کا ریمانڈ 14 دن کے لیے ہی لیا جاسکتا ہے جب کہ نیب کے ملزم کا ریمانڈ 90 روز کا ہے گویا کہ نیب کا قانون پاکستان میں انصاف کے نظام اور انسانی حقوق کے برعکس ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں خواجہ آصف نے شاہ محمود قریشی کا نام لئے بغیر ان کے خوب لتے لئے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم نے نیب کو اتنا بھگت لیا ہے اور باقی بھی بھگت لیں گے۔ اپوزیشن تو اب پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ بھی کر چکی ہے اور اس طرح نیب آرڈیننس جس کی مزید توسیع نہیں ہوسکتی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے ایوان میں الزام عائد کیا تھا کہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون میں ترمیم کو نیب قانون میں ترامیم سے مشروط کر دیا ہے جو حکمران جماعت کو قبول نہیں۔ واضح رہے کہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مسودہ قوانین منظور کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ قوانین میں کچھ غیر ضروری شقیں بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد میں جب یہ ڈرامہ ہو رہا تھا تولاہور سیاسی سرگرمیوں کامرکز بنا ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین خاصے سرگرم تھے بلاول بھٹو نے مقامی ہوٹل میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ واضح رہے کہ میاں شہباز شریف جو خاصے عرصے سے عملی طورپر کنا رہ کش تھے، کی بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقا ت ہو گئی۔ انھوں نے بالآخر بلاول بھٹو کو شرف ملاقات بخش ہی دیا۔ بعدازاں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا گیا عید کے بعدآل پارٹیز کانفرنس کااعلان ہو گا تاہم یہ واضح نہیں کہ میٹنگ اے پی سی کی ہو گی یا رہبر کمیٹی۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر عوام کے سا تھ کھڑے ہونگے۔ شہبازشریف نے بھی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا عمران نیازی اور پاکستان اب اکٹھے نہیں چل سکتے۔ پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو نے کہا جب وہ بیمار تھے تب بھی رابطے میں تھے۔ اب صحت مند ہو گئے تو انقلاب کی قیادت کریں گے جس پر شہباز شریف نے بلاول کو تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ ذمہ داری جوان کندھوں پر ڈالیں گے جس پروہاں قہقہے بھی لگے۔

متحدہ اپوزیشن مڈٹرم انتخابات پر زور دے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ فارمولہ بھی چلایا جا رہا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے۔ اس سے پہلے بھی مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ برس اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے تحریک چلانے کی کوشش کی۔ زبا نی جمع خرچ کے علاوہ شہبازشریف اور نہ ہی بلاول بھٹو نے ان کا بھرپور ساتھ دیا بلکہ اپنے نمائندوں کو اے پی سی میں شرکت کے لیے بھیج کر سارے عمل کو ڈاؤن گریڈ کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے بھی مولانا کے کسی جلوس میں علامتی شرکت کے علاوہ کوئی رول ادا نہیں کیا۔ نتیجتاً مولانا اپنے مدارس کے طلبہ کو لے کر اسلام آباد پہنچے تھے اور بالآخر ناکام ونامراد ہو کر واپس چلے گئے۔ اب بھی اگر اپوزیشن کا سڑکوں پر آنے کا پروگرام ہے تو یہ بیل اس وقت تک منڈھے نہیں چڑھ سکے گی جب تک میاں شہبازشریف اور مسلم لیگ (ن) کی لیڈ ر شپ اور کارکن اس کا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ بلاول بھٹو کے جوش وجذبے کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کا وجود تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس حوالے سے شہبازشریف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا فی الحال اس بارے میں حتمی پیشگوئی کرنا مشکل ہے کیونکہ اگرچہ شہبازشریف نے باقی اپوزیشن کے مطالبات کی بھرپور حمایت کی لیکن خرابی صحت کو جواز بنا کر وہ کسی وقت بھی غچا دے سکتے ہیں۔

بلاول کا جوش وجذبہ قابل قدر ہے انہوں نے جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا لیکن اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ناناجان ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل کر سڑکوں پر آنے کا پل صراط ابھی عبور کرنا ہے۔ اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ ان کے والد آصف علی زرداری شطرنج کے مہرے کس طرح چلاتے ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ فضل الرحمن کے پہلے دھرنے کے برعکس میں اب صورتحال خراب سے خراب تر ہے۔ کورونا وبا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ اس کے باوجود حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے کی بھرپور کوشش کرے گی اور اس میں کامیاب بھی ہو۔ مولانا کا حال اس وقت میاں نواز شریف جیسا ہے جب وہ جدہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے توکسی نے انھیں مشورہ دیا کہ میاں صاحب عوام مشرف سے بہت تنگ ہیں آپ پاکستان جا کر تحریک کی قیادت کریں تو میاں صاحب نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا میرے حامیوں نے نعرہ لگایا تھا قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمھارے ساتھ ہیں جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو میدان خالی۔