Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ehtesab Ke Naam Per Inteqam Na Ho

Ehtesab Ke Naam Per Inteqam Na Ho

نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے واقعی ایک بہت بڑا چھکا مارنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اخلاقی طور پر وہ کلین بولڈ ہو گئے ہیں۔ میاں نوازشریف پر یہ الزام کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں 4.7ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی اور اس پر مستزادیہ کہ بھاری رقم بھارت بھجوائی جس کے نتیجے میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر بلند جبکہ پاکستان کے کم ہو گئے۔ یہ "انکشاف " اسلام آباد کے ایک غیر معروف اخبار کے کالم نگار نے فروری میں ورلڈ بینک کی مبینہ رپورٹ کے حوالے سے کیا تھا۔ اب قریباً چار ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد باسی کڑی میں ابال کیونکر آیا۔ میاں نوازشریف ان کے نامزد کردہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان اس صورتحال پر خاصے برہم ہیں اور انھیں ہونا بھی چاہیے۔ کیونکہ ایسی "خبر " جس میں سچائی کا ایک فیصد بھی شائبہ ہوتا تو سابق وزیراعظم کا سیاسی کیریئر جو "پاناما لیکس" میں نااہلی اور نیب کے مقدمات کے باوجود ختم نہیں ہوا ہمیشہ کے لیے ہوا میں اڑ جاتا۔ نوازشریف نے اپنی پریس کانفرنس میں بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب 24گھنٹے کے اندر ان کے خلاف ثبوت پیش کریں اور قوم سے معافی مانگتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ عذر گناہ بد ترازگناہ نیب کے ترجمان نے اپنے وضاحتی بیان میں فرمایا ہے کہ نیب کا تو کام ہی ایسی اطلاعات کی چھان بین کرنا ہے۔ خواہ اس کے لیے اخباری خبروں پر ہی انحصار کرنا پڑے لیکن دوسری طرف نیب کے چیئرمین نے کسی شرمساری کا اظہار کئے بغیر ببانگ دہل فرمایا ہے کہ احتساب کرنا قوم کے مفاد میں ہے، اگر احتساب کرنا جرم ہے تو میں کرتا رہوں گا۔ یقینا جیسا کہ نیب چیئرمین نے کہا ہے کہ احتساب کرنا ذاتی نہیں اصولی اور قومی معاملہ ہے لیکن اگر اس طرح کی غیر مصدقہ خبروں، تبصروں اور کالموں پر سیاست دانوں کے علاوہ کاروباری شخصیات اور عام افراد کو پیشی کے نوٹس ملنا شروع ہو گئے تو یہ احتساب سے زیادہ انتقامی کارروائیوں کے زمرے میں آئے گا اور اس سے کون سے قومی مفاد کی آبیاری ہو گی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئرمین نیب کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سامنے طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ بھی ایک انتہائی قدم لگتا ہے بہتر ہوتا کہ اس ضمن میں اپوزیشن ارکان کے ساتھ مشاورت کر کے کوئی قدم اٹھایا جاتا کیونکہ پارلیمنٹ جمہوریت کی عملداری کی علامت ہے۔ جیسے نیب کے چیئرمین کسی بھی شہری کو طلب کر سکتے ہیں تو ان سمیت یہی حق پارلیمنٹ کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں بے لاگ، صاف شفاف اور منصفانہ احتساب کا میکنزم معرض وجود میں نہیں آ سکا۔ میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دور میں بھاری مینڈیٹ سے سرشار ہو کر خصوصی دست راست سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب بیورو کی داغ بیل ڈالی تھی جس کا کام مخالفین بالخصوص بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنا تھا۔ بعدازاں ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے نیب کی تشکیل کی جو قومی احتساب بیورو کے مخفف کے طور پر نیب کہلاتا ہے۔ انگریزی میں NABکا مطلب کسی کو اچانک گرفتار کر لینا یا پکڑ لینا ہے۔ عملی طور پر اس ادارے کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اگر نیب نہ ہوتی تو مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر مسلم لیگ (ق) بنتی اور نہ ہی پیپلزپارٹی کو توڑ کرپیٹریاٹس بنتے۔ اسی بنا پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے2006ء میں لندن میں چارٹر آف ڈیمو کریسی کے تحت احتساب کے لیے پارلیمانی ادارہ بنانے پر اتفاق کیا لیکن عملی طور پر ہوا اس کے الٹ ہوا۔ 2008ء میں جب پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تومسلم لیگ (ق) ان کی حلیف تھی۔ 2013ء میں میاں نوازشریف نے ان تمام لوٹوں کو جنہوں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی تھی واپس مسلم لیگ (ن) میں لے لیا۔ چند ماہ قبل مخدوم فیصل حیات جو پیٹریاٹس کی تشکیل کے سرخیل تھے بڑے اہتمام کے ساتھ واپس پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے۔ اس پس منظر میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لئے احتساب کا بے لاگ ادارہ بنانے میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ اس ضمن میں کئی ڈرافٹ قومی اسمبلی کی کمیٹیوں میں گھومتے رہے لیکن عدم دلچسپی کی بنا پر قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکے۔ اس وقت میاں نوازشریف کی طنابیں نیب نے پوری طرح کسی ّہوئی ہیں، اپنے خلاف ایون فیلڈز، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کا سامنا کرتے ہوئے بقول سابق وزیراعظم ہفتے میں سات کے سات دن اور دن میں تین تین پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ میاں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے تین ماہ مزید مانگے ہیں، ان کا کہنا ہے ہر قانونی نقطے پر بحث کرنی ہے۔ سپریم کورٹ کے مانیٹر جج نے انھیں ایک ماہ دیا ہے۔ لگتا نہیں کہ یہ کام ایک ماہ میں نبٹ جائے گا۔ ویسے بھی نیب میں چلنے والے مقدمات سالہا سال تک چیونٹی کی رفتار سے چلتے رہتے ہیں تاہم اس کیس میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر تیز رفتاری سے کام لیا جا رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس تیز رفتاری کے باوجود نیب عدالت میں میاں نوازشریف کے کیس سننے والے جج محمد بشیر کو کسی حد تک انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر صفائی کے وکلا کو بھی وقت دینا پڑے گا کیونکہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے نیب کی داغ بیل ڈالی تھی تو نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے سربراہ جنرل تنویر نقوی ان کاموں پر لگے ہوئے تھے۔ نیب کا قانون ہمارے لیگل سسٹم کے برعکس ہے جس میں جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ملزم ملزم ہی تصور ہوتا ہے جبکہ نیب کے معاملے میں الٹا حساب ہے، ملزم کوخود ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ مجرم نہیں ہے، اسی بنا پر نیب کسی شہری کو بھی کوئی شکایت موصول ہونے یا نوازشریف کے معاملے میں اخباری خبروں کی بنیاد پر طلب کر سکتا ہے۔ یقینا اقتدار کے ایوانوں جن میں سیاستدانوں کے علاوہ بزنس مین، بیوروکریٹس اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں کالی بھیڑوں کا بے لاگ احتساب ہونا چاہیے جیسا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے نیب کے قوانین میں ردوبدل کے لیے حکومتی تجاویز کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ صرف سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور چند بزنس مینوں کا ہی احتساب کیوں؟ ۔ اس ضمن میں بلاامتیاز سب کے احتساب کے لیے اگلی پارلیمنٹ کو منصفانہ احتساب کے لیے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالنی چاہیے تاکہ کوئی بھی انگشت نمائی نہ کر سکے کہ احتسا ب کے نام پر انتقام لیاجا رہا ہے۔