Ghaddari Ki Factoriyan?
Arif Nizami87
عین جب حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ پا رٹی کے قائد اورنا اہل وزیر اعظم میاں نوازشریف نے سو چے سمجھے بیان کے ذریعے ایسا ارتعاش پیداکر دیا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی اور عسکری حلقوں میں ہیجا نی کیفیت پیدا ہو گئی۔ میاں نواز شریف نے حال ہی میں ’ڈان، کے معروف کالم نگار سرل المیڈاجو رپورٹربھی نہیں ہیں کواپنے دورہ ملتان کے دوران خصوصی طورپر بلایا اور ایئرپورٹ پر داخلے کے لیے وزارت داخلہ سے خصوصی اجازت نامہ دلوا کر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت انٹرویو دیا۔ جی ہاں!یہ وہی سر ل المیڈ اہیں جنہوں نے اکتوبر2016ء میں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے حوالے سے خبر دی جو ’ڈان لیکس، کے حوالے سے مشہور ہوئی۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔ بعد ازاں اس خبر کے لیک ہونے کی پاداش میں حکومت نے نیم دلانہ اندازمیں اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید، معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی اور وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کوفارغ کر دیا۔ میاں نواز شریف نے اسی کالم نگار کو انٹرویو دے کر اس بات پر بھی مہر ثبت کر دی ہے کہ ’ڈان لیکس، کو بھی ان کی آشیرباد حاصل تھی۔ حالیہ انٹرویو میں میاں نواز شریف نے فر ما یا کہ ممبئی حملوں میں پاکستان میں متحرک عسکریت پسند تنظیمیں ملوث تھیں، یہ لوگ 2008ء میں ممبئی میں ہونے والی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ"مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں انہیں اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں متحرک ہیں، آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ سکتے ہیں "۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی ملک میں 2 یا 3 متوازی حکومتیں ہوں تو آپ وہ ملک نہیں چلا سکتے، ا س کے لیے صرف ایک آئینی حکومت کا ہونا ہی ضروری ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم نے خود کو تنہائی کا شکار کر لیا ہے۔ ہماری قربانیوں کے باوجود ہمارے موقف کو قبول نہیں کیا جاتا، افغانستان کے موقف کو قبول کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے نہیں۔ ہمیں اس جانب توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے ممبئی حملوں کے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلنے والے مقدمے کے حوالے سے کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی؟ ہماری عدالتوں میں ممبئی حملوں کے ملزموں کا ٹرائل اب تک کیوں مکمل نہ ہوا؟ ۔ اس طرح میاں صاحب نے وہ وعدہ جو انھوں نے حال ہی میں اپنی ایک پریس ٹاک میں کیا تھا کہ ان کے سینے میں بہت سے راز ہیں، وہ آہستہ آہستہ بتائیں گے کہ وطن عزیز میں سکیورٹی ایجنسیوں کا کیا رول رہا ہے؟ سامنے آ رہا ہے۔ فطری طورپر اس انٹرویو کے بعد فوج کو آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان دے کر الزامات کو مسترد کر ناپڑا۔ بعد ازاں قومی سلامتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے مقامی اخبار میں شائع ہونے والا سابق وزیراعظم نواز شریف کا حالیہ بیان غلط اور گمراہ کن ہے۔ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ غلط معلومات یا شکایات پر مبنی رائے کو حقائق کو نظرانداز کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم، وزیر دفاع، وزیرخزانہ، قومی سلامتی کے امور کے مشیر ناصر جنجوعہ اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ ترین عسکری حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کے مقدمے میں پیش رفت میں رکاوٹ انڈیا ہے نہ کہ پاکستان۔ اس مقدمے کی تحقیقات کے سلسلے میں دیگر معاملات پر انکار کے علاوہ اس کے مرکزی ملزم اجمل قصاب تک رسائی نہ دینا اور جلد بازی میں اس کو پھانسی دینا اس مقدمے کی جلد تکمیل میں رکاوٹ ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کلبھوشن یادیو اور سمجھوتہ ایکسپریس کے معاملات میں انڈیا کے تعاون کا منتظر ہے۔ دوسری طرف اس معاملے میں عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف نے سب سے زیادہ شور مچایا اور بڑی سرعت کے ساتھ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نوازشریف پر غداری کاالزام چسپاں کر دیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں ایک رٹ کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ نواز شریف پر سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے جو عدالت عالیہ نے مستردکر دی۔ خود میاں نواز شریف کی جماعت کے رہنما اس معاملے میں خاصی مشکل میں ہیں۔ میاں شہباز شریف وضاحتیں دیتے پھررہے ہیں کہ بھارتی میڈیا نے میاں نواز شریف کے انٹرویو کو اپنا الوسیدھا کرنے کے لیے سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی کی صورتحال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بن گئی ہے۔ میاں نواز شریف کے بیان پر ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعدسابق وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد اور پارلیمنٹ میں شاہد خاقان عباسی کا استدلال نواز شریف کے حق میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے کبھی نہیں کہا حملہ آور پاکستان سے گئے تھے، طویل انٹرویو میں سے 3سطروں کو اچھالا گیا، نوازشریف نے کہا میرے بیان کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔ اس دلچسپ صورتحال میں یہ بات سمجھ نہیں آ سکی وزیر اعظم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جس کی انہوں نے صدارت کی تھی اس میں سچے تھے یا جو باہر آ کر بات کی اس میں سچ بول رہے تھے، خیر ایسی صورتحال پیدا کر کے شاہد خاقان عباسی نے اپنے آپ کو وجہ مزاح بنایا ہے اور اس سے وزیراعظم کے عہدے پر بھی حرف ہی آیا ہے۔ اس سے بڑی کیا ستم ظریفی ہو سکتی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی متذکرہ پریس ٹاک کا سرکاری ٹیلی ویژن تک نے بائیکاٹ کر دیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن حکومت کا نفس ناطقہ ہو تا ہے اور جب کسی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے فارغ کیا جا ئے تو سب سے پہلے ٹیلی ویژن سٹیشن پر قبضہ کیا جا تا ہے جیساکہ طالع آزما پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کوفو ج کا ایک دستہ بھیج کر پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کرا دیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ تو لگتا ہے کہ ایک فون کال پر ہی کام ہو گیا ہے اور وزیر اعظم اور ان کی حکومت چوں بھی نہ کر سکی۔ یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اس خاردار راستے پر کیوں چل پڑے ہیں اور ان کے مطابق 70برس میں ہونے والی ناانصافیوں جن کے دوران کسی بھی وزیر اعظم کوکام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا کو درست کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ لیکن ان کی اپنی ہی جماعت کی پارلیمانی کمیٹی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں بہت سے ارکان اسمبلی نے میاں نواز شر یف کے بیانات پر کھلی تنقید کی اور وہ ان سے متفق نہیں ہیں۔ شہبازشریف کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت 100 سے زائد اراکین نے شرکت کی۔ ن لیگ کے اراکین نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے بیانیے سے اداروں میں تصادم بڑھ رہا ہے، شہباز شریف نواز شریف تک ہمارے تحفظات پہنچائیں۔ بھارتی حکام کلبھوشن کا الزام اپنے اداروں کو نہیں دیتے، ہم خوا مخواہ اپنے اداروں پر کیوں الزام لگا رہے ہیں۔ ارکان نے ممبئی حملوں سے متعلق نوازشریف کے انٹرویو پر شکوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت، ملکی امورکے دیگر اقدامات مشکلات کاسبب بن رہے ہیں، جس پر شہبازشریف نے یہ انوکھا موقف اختیار کیا کہ جس نے نواز شریف کا انٹرویو کرایا اس نے زیادتی کی، وہ پارٹی کا دشمن ہے۔ اجلاس میں اراکین نے شہباز شریف کو پارٹی معاملات خود سنبھالنے کا مشورہ بھی دیا، برادر خوردنے ارکان کو یقین دہانی کرائی کہ نوازشریف کے بیانیہ میں وقت کے ساتھ نرمی آئے گی۔ بعض ماہرین قانون کے مطابق نواز شریف نیب کی گرفت سے نہیں بچ پائیں گے اور ان کے خلاف تین ریفرنسوں پر کا رروائی مکمل ہوئی تو فیصلہ ان کے خلاف دیوار پر لکھا ہوا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کو تینوں کیسز میں چودہ چودہ برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اتنی طویل قید کے حوالے سے عام تاثر کے برعکس ہائیکورٹ سے ان کی ضمانت میں بھی کچھ وقت لگے گا جو عرصہ دو برس تک محیط ہو سکتا ہے۔ ان کی شعلہ نوا صاحبزادی اور سیاسی جانشین کی منزل بھی جیل ہی بتائی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب مرتا کیا نہ کرتا کے مترادف اب کشتیاں جلا کر میدان میں آ گئے ہیں اور نتائج کی پروا کیے بغیر اسی کٹھن راستے پر کا ربند ہو گئے ہیں۔ یقینایہ صورتحال پارٹی کو بھی مہنگی پڑے گی۔ غدار، غدار کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ الزام پاکستان کے چند حکمرانوں کو چھوڑ کر کس پر نہیں لگا؟ ۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے جب ایوب خان کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا توایوب خان نے انھیں بھارت اور امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا پھرذوالفقار علی بھٹو کو غدار قرار دیاگیا۔ بھٹو دور میں ولی خان اور ان کے ساتھیوں کو مسلسل وطن دشمن کہا جاتا رہا حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیراعظم نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قراردے دیا۔ بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کومیاں نواز شریف نے سکیورٹی رسک قراردیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ میاں نوازشریف کو جلا وطن کیا لیکن غداری کا لیبل چسپاں نہیں کیا۔ شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک پنجابی سیاستدان جو تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکا ہے اس پر غداری کا لیبل لگایا جارہا ہے۔ ہمیں یہ غداری کی فیکٹریاں بند کر کے اصل غداروں کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔