Ghareebon Ke Zakhmon Per Bhi Marham
Arif Nizami95
سپریم کورٹ کی طرف سے شریف فیملی کے خلاف ریفرنس پر فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کے احکامات پر ایک بحرانی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ میاں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث جو گزشتہ 9ماہ سے عدالت میں پیش ہو رہے تھے، انھوں نے نوازشریف کی مزید وکالت کرنے سے معذرت کر لی ہے اور وکالت نامہ واپس لینے کا عندیہ دیا ہے۔ اتوار کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی تھی جس میں دلچسپ مکالمہ بازی ہوئی۔ بینچ نے خواجہ حارث کی چھ ہفتوں میں دلائل مکمل کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور کہا کہ ہفتے کو بھی عدالت لگائی جائے۔ خواجہ حارث نے معزز جج صاحبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر ہفتہ، اتوار کی حاضری کی پابندی نہ لگائیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں انصاف نہیں چاہتے، اگرچہ ان کے موکل جیل جانے کو بھی تیار ہیں۔ خواجہ صاحب کا موقف تھا کہ اس جلد بازی میں ان کے موکل کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے، آپ عدالت کو دھمکا نہیں سکتے تاکہ وہ آپ ہفتہ اور اتوار کو کام نہیں کر سکتے تو موکلان سے کہہ دیں کوئی اور وکیل کر لیں۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیس پر مرضی کا فیصلہ آجائے تو سب ٹھیک ہے ورنہ عدلیہ کو گالی دی جاتی ہے، گویا کہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔ دوسری طرف خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ وہ ہفتہ اور اتوار کو چھٹی نہیں کرتے بلکہ انھیں کیس تیار کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا میاں نوازشریف سے کہنا کہ آپ کوئی اور وکیل کر لیں، ماہرین قانون کے مطابق قرین انصاف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ایک بہت پرانا مقولہ ہے کہ انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ اسی بنا پر جہاں اتنا وقت گزرا ہے وہاں عدالت عظمیٰ میاں نوازشریف کے وکیل کو دو ہفتے مزید دے دیتی تو کوئی طوفان نہ آ جاتا۔ گزشتہ شام ایک ٹاک شو میں سابق صدر وسینیٹر اور قانون دان وسیم سجاد نے بھی کہا کہ چار سے پانچ ہفتے ہونے سے کوئی طوفان نہیں آ جانا۔ لگتا ہے کہ جس انداز سے کیس چل رہا ہے نیب کے تینوں ریفرنسوں میں جیل میاں نواز شر یف کا مقدر بن گئی ہے۔ جیسا کہ ان کے وکیل نے کہا ہے کہ نواز شریف ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی ہیں۔ میاں نوازشریف کی حکمت عملی تو واضح ہے کہ کیس کو جتنا لمبا کیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ لیکن پھر بھی نیب عدالتوں کی تاریخ دیکھی جائے تو کیس کئی کئی ماہ بلکہ برسوں چلتے رہتے ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی دیر بھی نہیں ہوئی۔ یقینا چیف جسٹس آف پاکستان شبانہ روز محنت کر رہے ہیں، وہ ہفتہ اتوار کو بھی کام کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کرنے پر میاں نوازشریف کے وکیل کو مجبور نہیں کر سکتے۔ دراصل میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد متوقع طویل قید ایسے مرحلے پر ہو گی جبکہ انتخابی مہم جاری وساری ہو گی اور25جولائی کو عام انتخابات کے لیے ووٹنگ ہونی ہے۔ گویا کہ اگر میاں نوازشریف اور ان کے وکیل عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مان لیتے ہیں تو عام انتخابات کے انعقاد سے دس بارہ روز قبل ان کی تقدیر کا فیصلہ ہو جاتا ہے لیکن دو ہفتے کی توسیع مل جاتی ہے تو معاملہ عام انتخابات کے انعقاد سے آ گے چلا جائے گا۔ غالبا ً میاں نوازشریف کی بھی فطری طور پر یہی خواہش ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اتنا بھاری مینڈیٹ ملے گا کہ نیب کے ریفرنسز دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ انصاف تو اندھا ہوتا ہے اور عدالت عظمیٰ کو اپنے فیصلے سیاست کی بنا پر نہیں کرنے چاہئیں اور یقینا یہی سوچ فاضل چیف جسٹس کی ہو گی۔ میاں نوازشریف کے وکیل نے جو قضیہ کھڑا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سمری طریقے سے ٹرائل مکمل کر کے انھیں جیل بھیج دیا گیا تو وہ اسے پری الیکشن دھاندلی قرار دیں گے۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری جو بنیادی طور پر وکیل ہیں نے موجودہ صورتحال کے محرکات پر غور کیے بغیر ہی یہ بیان داغ دیا ہے کہ اگر میاں صاحب وکیل نہیں کرتے تو سرکاری طور پر ان کو وکیل دے دیا جائے لیکن کیا ایسا کرنے سے انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے؟ ۔ پہلے ہی آ وازیں اٹھ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کنگز پارٹی بن چکی ہے۔ یقینا عمران خان ایک پاپولر لیڈر بن چکے ہیں ان پر ایسا لیبل چسپاں نہیں کرنا چاہیے تاہم ان کے نادان کھلاڑی اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر نہ صرف ناقدین کے شکوک وشبہات کو تقویت پہنچا رہے ہیں بلکہ ان کی یا جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ یقینی طور پر میاں نوازشریف نااہلی کے باوجود انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے لیے ترپ کا پتہ ہیں۔ بطور تاحیات قائد پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملات بھی ان کی نگرانی میں طے ہو رہے ہیں۔ پیر کو بھی خواجہ حارث کی وکالت سے دستبرداری کے باوجود میاں نوازشریف نے لاہور میں پارلیمانی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کی۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین سپریم کورٹ سے نااہل قرار دے دیئے گئے لیکن عملی طور پر وہی پارٹی کے مدارالمہام ہیں۔ اسی بنا پر میاں نوازشریف مخالف عناصر انھیں سرعت سے جیل بھیجنے کے شدید خواہشمند ہیں۔ ظاہر ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ان کوششوں کاحصہ نہیں ہیں۔ جہاں تک چیف جسٹس وطن عزیز میں پانی کی قلت سے لے کرموبائل کارڈ پر ٹیکسز تک کے معاملات پر بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے حمزہ شہبازشریف اور ان کے والد کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور برخوردار حمزہ شہبازشریف اور عائشہ احد کے مابین نو سالہ تنازع کی ثالثی کرا دی ہے۔ قریباً تیس سال پرانے اصغر خان کیس کی بھی دوبارہ سماعت شروع ہو گئی ہے۔ لیکن یہ الگ بات ہے میاں نوازشریف سمیت کوئی ملزم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس نے اینٹی بے نظیر الائنس بنانے کے لیے پیسے وصول کیے تھے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ جن کی قیادت میں یہ سب کچھ ہوا اپنے نام نہاد تھنک ٹینک’ فرینڈز، کے لیے تین کروڑ کی خطیر رقم لے کر چلتے بنے۔ ان سرگرمیوں کا تقاضا تو یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا ہزاروں کیسوں کا بھی مداوا کیا جائے۔ بطور منصف اعلیٰ جسٹس ثاقب نثار کو یہ کام جو ان کے کلیدی فرائض منصبی میں شامل ہے ہنگامی بنیادوں پر کرنا چاہیے کیونکہ بعض کیسز میں غریب سائلین کی کئی کئی پشتیں انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے دھکے کھا کھا کر اور وکلا کو فیسیں دے کر تھک جاتی ہیں اور قلاش ہو جاتی ہیں لیکن انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، بابا رحمتے کو ہائی پروفائل کیسوں کے علاوہ ان غریبوں کے زخموں پر بھی پھاہا رکھنا چاہیے۔ انہوں نے اس سنجیدہ معاملے کا حل نکال لیا تو تاریخ انہیں یاد رکھے گی۔