چند روز قبل ہی میں سی این این دیکھ رہا تھا، اس امریکی چینل نے ایمریٹس ایئرلائنز کے برانڈ پر چند منٹوں کا پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا۔ یہ تو معلوم ہی تھا کہ ایمریٹس دنیا کی چوتھی بڑی فضائی کمپنی بن چکی ہے اور دبئی ایئرپورٹ کا شمار دنیا کے مصروف ترین بین الاقوامی ہوائی اڈوں میں ہوتا ہے لیکن جس بات نے مجھے چونکا دیا وہ یہ تھی کہ ایمریٹس ایئر لائنز کی جب 25 مارچ 1985ء کو بنیاد ڈالی گئی تو یہ ایئرلائنز پی آئی اے کے 2 جہاز لیز پر لے کر شروع کی گئی اور دونوں جہازوں کا عملہ بھی پاکستانی تھا۔ مجھے افسوس ہوا کہ پی آئی اے اس عرصے کے دوران اتنی اتھاہ گہرائیوں اور ایمریٹس ایئرلائنز کن بلندیوں پر چلی گئی ہے۔ ہم لاکھ فخر کریں کہ ایوب خان کے زمانے میں پہلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کا بلیو پرنٹ جنوبی کوریا کو دیا اور وہ ترقی کی بلندیوں کی طرف گامزن ہو گیا، ایمریٹس ایئرلائنز کی بنیاد بھی بلاواسطہ طور پر ہم نے ہی رکھی، اب ماضی کی ان یادوں سے حال کی ناکامیوں کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ پاکستان ہر شعبے میں رجعت قہقری کا شکار ہے۔ ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ہماری فوج کا شمار دنیا کی پانچ بڑی افواج میں ہوتا ہے لیکن باقی شعبوں میں بطور قوم ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اقتصادی طور پر ہم اتنے قلاش ہو چکے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم جو کہتے تھے میں کشکول اٹھا کر نہیں پھروں گا اور ان کے پیشرو بھی دعوے کیا کرتے تھے میں کشکول توڑ دوں گا لیکن آج دنیا بھر میں کشکول لے کر پھر رہے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان جو اس بات پر فخر کرتی ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ہیں اقتصادی طور پر اس خطے میں سب سے پیچھے ہے حتیٰ کہ بنگلہ دیش جسے مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کم تر سمجھتی تھی اقتصادی طور پر ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ کسی ملک میں بزنس اور ٹورازم کو فروغ دینے میں ایک فعال ملکی ایئرلائنز کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ جو ممالک اقتصادی طور پر ترقی کرتے ہیں وہاں ایئرپورٹس، ایئرلائنز اور سڑکوں کا جال پھیلایا جاتا ہے۔ اس وقت ہماری قومی ایئرلائنز پی آئی اے کی جو حالت زار ہے وہ ہر چند ہے کہ نہیں ہے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے صرف موجودہ حکومت کو قصور وار قرار دینا مبنی برانصاف نہیں ہو گا کیونکہ قومی ایئرلائنز سالہا سال سے زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ اس کا بیڑہ غرق کرنے میں یونین بازی، پائلٹ اور انجینئر ایسوسی ایشنز، برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی بے جا دخل اندازی، سفارشی اور نااہل موٹی موٹی تنخواہوں اور مراعات پر رکھی ہوئی اعلیٰ ترین مینجمنٹ کا بڑا ہاتھ ہے لیکن سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے پی آئی اے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ماہ رمضان کے دوران پی کے 8303 ایئربس کے کریش کے معاملے میں وزیر شہری ہوابازی غلام سرور خان نے وزیراعظم کی آشیرباد سے غیرمعمولی عجلت کا مظاہرہ کیا جس سے ملکی اور اقتصادی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی یہ ایک مسلسل روش بن گئی ہے کہ ہر معاملے میں سیاسی کریڈٹ لیا جائے اور دعویٰ کیا جائے کہ ہم تو بہت پوتر اور شفاف سیاستدان ہیں۔ ہم نے اپنے سیاستدانوں اور سسٹم کو خود ہی کرپٹ ترین اور مافیا قرار دیتے ہوئے پاکستان کی رہی سہی ساکھ کو بھی مٹی میں ملا دیا ہے۔ جہاز حادثے کے معاملے میں پائلٹ پر سارا ملبہ ڈالنے اور رپورٹ عجلت میں جاری کرنے کے بجائے قدرے توقف سے کام لیا جانا چاہئے تھا۔ اگرچہ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ ناگہانی حادثہ کاک پٹ عملے کی فاش غلطی اور تساہل کی بنا پر ہوا لیکن اس پر کریڈٹ لینے کی کیا جلدی تھی۔ اس پر مستزاد ساتھ ہی وزیر موصوف نے 262 پائلٹوں کے لائسنسوں کو جعلی یا مشکوک قرار دے دیا۔ غلام سرور خان کو غالباً ایوی ایشن انڈسٹری کی تکنیکی پیچیدگیوں کا علم نہیں اور نہ ہی ان کے باس عمران خان کو۔ لہٰذا اس کے محرکات کا ادراک کئے بغیر حکومت کی ٹرانسپرنسی کے خوب ڈونگرے برسائے گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پی آئی اے کے جہاز یورپ امریکہ سمیت اپنے سیفٹی ریکارڈ کی بنا پر دنیا میں کہیں لینڈ نہیں کر سکتے۔ غیر ملکی ایئرلائنز میں کام کرنے والے96 پائلٹس بھی گراؤنڈ کر دئیے گئے۔ اب وضاحتیں کی جا رہی ہیں کہ ان کے لائسنس کلیئر ہیں لیکن بین الاقوامی فضائی تنظیموں اور ریگولیٹرز نے پاکستانی پائلٹس کو ڈاؤن گریڈ کر دیا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈایئریکٹر جنرل نے یہ دعویٰ کر کے کہ کسی پاکستانی پائلٹ کے پاس جعلی لائسنس نہیں ہے سارا ملبہ میڈیا پر ڈال دیا ہے حالانکہ اس میں میڈیا کا کیا قصور ہے؟ ۔ اگر کسی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ وزیر ہوابازی ہی ہیں جنہوں نے بڑے طمطراق اور فخر سے اعلان کیا کہ ہم نے رپورٹ بھی جاری کر دی ہے اور نام نہاد جعلی پایلٹس کا مکو بھی ٹھپ دیا ہے، میڈیا نے تو صرف وہ باتیں رپورٹ کیں جو وزیراعظم سمیت حکومتی عمائدین اس حوالے سے کرتے رہے۔ اپوزیشن کی طرف سے غلام سرور خان کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، اگر وہ خود مستعفی ہونے کیلئے تیار نہیں تو خان صاحب کو قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں انہیں گھر بھیج دینا چاہئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں تباہ ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کی تحقیقاتی رپورٹ میں ایئر کنٹرولرز کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، اتنے بڑے حادثے کے بعد بھی وہ کام کرتے رہے اور کسی نے ان سے جواب طلبی نہیں کی۔ غالباً بعد اس خرابی بسیار انہیں معطل کر دیا گیا لیکن یہ معاملہ پائلٹ کی کوتاہی، جعلی لائسنس یا ایئرکنٹرولرز تک محدود نہیں بلکہ موجودہ نظام کی مجموعی طور پر ناکامی ہے۔ حال ہی میں پی آئی اے کے سی ای او ایئرمارشل ارشد ملک کے کنٹریکٹ میں توسیع کر دی گئی ہے۔ پہلے وہ حاضر سروس ہونے کی بنا پر ایئرفورس اور پی آئی اے دونوں سے مراعات لے رہے تھے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی پاکستان میں قومی ایئرلائنز کی بنیاد رکھنے والے ایئرمارشل اصغر خان اور ایئرمارشل نورخان بھی اس کے سربراہ رہے ہیں لیکن ریٹایئرہونے کے بعد۔ اس دور میں ایوی ایشن انڈسٹری اتنی پیچیدہ نہیں تھی جو اب اوپن سکائی پالیسی کی وجہ سے بن چکی ہے۔ ایوی ایشن کا کردار ریگولیٹری باڈی کا ہے لیکن کیا وہ حقیقی معنوں میں یہ کردار ادا کر رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میرٹ پر شفاف طریقے اور چھان پھٹک کرکے اچھے پروفیشنلزکو ایسی پوزیشنز پرلگایا جائے۔
ایوی ایشن انڈسٹری کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سول ایوی ایشن کے ڈایئریکٹر جنرل بھی ایک ریٹایئرڈ ایئرمارشل ہیں۔ نہ جانے کیوں اس قسم کے بیانات دے کر کہ نیویارک میں پی آئی اے کا روزویلٹ ہوٹل خریدنے میں صدر ٹرمپ دلچسپی رکھتے ہیں، پاکستان سٹیل ملز پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ سے چلائی جائیگی، عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ لیڈر شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خسارے میں چلنے والے پبلک سیکٹر کے اداروں کو پرائیویٹائز کریں اسی میں عوام کا فائدہ ہے۔