Javed Hashmi Jesi Ghalti
Arif Nizami99
مسلم لیگ ن کے مرد ناراض چودھری نثار علی خاں کو منانے کی مسلسل کو ششیں ہو رہی ہیں۔ برادر خورد اپنے یا رغار کے گلے شکوے دور کرنے کی ہر ممکن سعی کر رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے کے دوران چودھری نثار علی خاں سے تین ملاقاتیں کر چکے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ شریف برادران کے سابق لاڈلے اتنے ناراض ہیں کہ ابھی تک صلح نہیں ہو پائی۔ میاں شہباز شریف اتوار کو ان سے ملاقات کر کے صلح کی شرائط لے کر سیدھے میاں نواز شریف کے پاس گئے۔ چودھری نثار کا یہ مبینہ شکوہ جائز ہے کہ پارٹی کے بعض رہنماؤں نے ان کے خلاف ذاتی مخالفت کی مہم چلا رکھی ہے جو پارٹی کے لیے بہتر نہیں ہے۔ چودھری نثار کے گلے ذاتی بھی ہیں، اصولی بھی اور نظریاتی بھی۔ نظریاتی طور پر چودھری نثار کا تعلق اس مسلم لیگ (ن) سے ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہونے کے علاوہ مقتدر اداروں کی ہمیشہ منظور نظر رہی ہے۔ چودھری نثار، میاں نواز شریف اور ان کے نو انقلابی ساتھیوں جن میں پرویز رشید، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق پیش پیش ہیں کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن سے سخت اختلاف کرتے ہیں اور اسے پارٹی کے وسیع تر مفاد کیلئے انتہائی مضر سمجھتے ہیں۔ معاملات اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب میاں نواز شریف گزشتہ برس جولائی میں ’پاناماگیٹ، کیس میں نااہل قرار دیئے جانے کے بعد اس بات پر مشاورت کر رہے تھے کہ آیا ہارڈلائن اختیار کی جائے اور سڑکوں پر جدوجہد کی جائے یا خاموشی سے جاتی امرا میں پناہ لے لی جائے۔ علامتی طور پراس ڈبیٹ کا محور یہ تھاکہ میاں صاحب اسلام آباد سے لاہور خاموشی سے براستہ موٹروے جائیں یا جی ٹی روڈ پر جلسے کرتے ہوئے جائیں۔ چودھری نثار اول الذکر حکمت عملی کے حامی تھے۔ میاں صاحب نے ہو نہار اور فعال صاحبزادی مریم نوازاور اپنے عقابوں کے مشوروں پر صاد کرتے ہوئے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ ویسے تو یہ لائن میاں صاحب کا اپنا فیصلہ تھا لہٰذا اس کے لیے مشیروں کوہی مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہو گا۔ میاں صاحب اور ان کے حواریوں کے نزدیک اس سے انھیں اور پارٹی کو ہی فائدہ ہو گا۔ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی نے قریباً پونے برس کے دوران ’مجھے کیوں نکالا، کا نعرہ بلندکیا اور ملک بھرمیں جلسے کیے۔ اسی دوران مسلم لیگ(ن) قر یباً تمام ضمنی انتخاب جیتی۔ مبصرین کاما تھا اس وقت ٹھنکا جب لودھراں میں مسلم لیگ (ن) کے ایک نسبتاً غیر معروف ٹکٹ ہولڈر نے تحریک انصاف کے نا اہل ہونے والے جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو واضح برتری سے شکست دے دی۔ میاں صاحب نے غالباً صحیح یا غلط طورپر یہ ادراک کر لیا تھا کہ انھیں عدالت عظمیٰ کی طرح نیب سے بھی سزا ہو جائے گی۔ لہٰذا اگروہ چوڑیاں پہن کر گھر بیٹھ گئے تو نہ صرف ان کی بلکہ مسلم لیگ(ن) کی سیاست کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔ برادرخورد شہباز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ سے بگاڑنے کے حق میں نہیں ہیں اور میاں صاحب سے مسلسل یہ ڈائیلاگ کرتے چلے آرہے ہیں کہ آ پ فوجی قیادت اورعدلیہ پر ہاتھ ذرا ہولا رکھیں۔ ان کی کوششیں جزوی طور پر بار آور ثابت ہوئی ہیں کہ میاں صاحب اب مقتدر اداروں کے بارے میں گفتگو میں نسبتاً ذرا حتیاط سے کام لیتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ میاں صاحب کی جارحانہ حکمت عملی کا فائدہ ہوگا یا نقصان لیکن اس وقت تو میاں صاحب اور ان کے عقاب سمجھتے ہیں کہ ان کی حکمت عملی درست تھی اور نثار جیسی فاختاؤں کامشورہ صائب نہیں تھا۔ چو ہدری نثار علی خان کا دوسرا گلہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف اب انھیں لفٹ نہیں کراتے اورانھیں میٹنگز میں بھی نہیں مدعو کیا جاتا۔ کسی حد تک ان کا گلہ جائز ہے وہ پرانے مسلم لیگی ہیں اور ان کا جو بھی نکتہ نگاہ ہے وہ بدنیتی پر مبنی نہیں ہے لہٰذا ایسے لوگ پارٹی کے لیے اثاثہ ہوتے ہیں۔ راجہ ظفر الحق ہوں یا نثار پارٹی کے بانیان کو پوری عزت دینی چاہیے۔ جہاں تک پرویز رشید کی ان کے خلاف بیان بازی کا تعلق ہے یہ بھی محل نظر ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہنا کہ اگر کوئی ٹکٹ مانگے کا نہیں تو اسے ٹکٹ دینے کا کیا سوال؟ ۔ انھیں یہ معاملہ اپنی پارٹی کے قائد پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ اسی طرح چوہدری نثار کو بھی اپنا شملہ تھوڑا سا نیچا کرنا چاہیے۔ سیاست اور نرگسیت ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں۔ یہ کہاں تک مناسب ہے کہ جب میاں نواز شریف اوران کا خاندان مشکلات میں گھرا ہوا ہے چوہدری صاحب ان کے خلاف بیان بازی کریں۔ ان کے اس استدلال کہ وہ میاں صاحب کی بیٹی مریم نواز کو لیڈر تسلیم نہیں کریں گے محض اس مفروضے پر مبنی ہے کہ وہ ملک کی وزیر اعظم یا پارٹی کی صدر بن رہی ہیں۔ اس وقت تو وہ اپنے والد کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں اور بطوران کی سیاسی جانشین، ایسا ہی ہوناچاہیے۔ بہتر ہوتا کہ چوہدری صاحب اپنے گلے شکوے پارٹی کے اندر کرتے نہ کہ باہر۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ میاں نوازشریف کا مخصوص انداز ہے کہ جب کسی سے ان کا دل اترجائے تو ایسے شخص کو وہ بالکل رد کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ ذاتی اور سیاسی طور پر ان کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ آصف زرداری کے برعکس وہ دوست بنا تے نہیں بلکہ انھیں ناراض کرتے ہیں۔ آصف زرداری کو ہی لیجیے، بطور وزیر اعظم میاں صاحب نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جو ایک لحاظ سے ان کے محسن بھی ہیں سے ایسا رویہ اختیار کیا کہ اب وہ ان کا نام سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ محترمہ ماروی میمن نے چو ہدری نثار کی تائید کرتے ہوئے درست بات کی ہے کہ جی حضوری نہ کرنے والوں کو پارٹی میں سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ محترمہ 2013ء کے انتخابات کے بعد نئی پارٹی کے لیے شاپنگ کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) میں آ ئیں اور آ تے ہی بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن بن گئیں تووہ کس طرح سائیڈ لائن ہوئیں؟ ۔ ان کاتو مسلم لیگ(ن) میں مخصوص نشست پر منتخب ہو کر اقتدار کی چھاؤں کا مزہ لینے کے علاوہ کوئی حصہ نہیں ہے اور نہ جانے انھیں اس بات کا خیال اچانک اب کیوں آیا جبکہ ان کی جماعت کی لیڈر شپ زیرعتاب ہے اور عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے با وصف ان کی بات اصولی طور پر درست ہے۔ میاں صاحب بیماری کی حدتک خوشامد پسند بن چکے ہیں۔ ان کی اس کمزوری سے نورتن خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی یہ کمزوری صرف اپنے ساتھیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان سے ملاقاتیں کر نے والے صحافیوں اور دیگر شخصیات سے اپنے بارے میں تعریفی کلمات سننا پسند کرتے ہیں اور تنقیدی جملے انھیں پسند نہیں ہو تے۔ بعض اوقات تو میں نے دیکھا ہے کہ جو خوشامد نہ کر یں ان سے فرمائشی سوال کر کے تعریفی جملے نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے میاں صاحب نے اپنے حالیہ چار سالہ دور وزارت عظمیٰ میں ان صحافیوں کے ساتھ ایسی بیٹھکیں کرنے سے مکمل اجتناب برتا جوان کے ڈھب کی بات نہیں کرتے۔ بہر حال چوہدری نثار علی خان کو کسی اور جماعت میں جانے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے، جہاں تک خو شامدی کلچر کا تعلق ہے اس معاملے میں ان کے پرانے دوست تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی نیچے بیٹھنے والے نہیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ شریف برادران ان سے اور وہ شریف برادران کے سا تھ معاملات درست کر لیں بصو رت دیگر انھیں جاوید ہاشمی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ مسلم لیگ(ن) کو خیرباد کہہ کر گئے اور بعدازاں دوبارہ شامل ہو نے کے باوجود وہاں فٹ نہ ہو سکے اور اب سیا ست میں کٹی پتنگ کی طر ح ہیں۔ چوہدری سرور بھی جنہیں بڑ ے طمطرا ق سے تحر یک انصاف میں لا یا گیا تھا، اب پارٹی کے کونوں کھدروں میں چھپے بیٹھے ہیں۔