Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kab Tak Koi Bojh Bardasht Kare?

Kab Tak Koi Bojh Bardasht Kare?

نوے کی دہائی کے آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں وفاقی حکومت اور پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کے درمیان شدید محاذ آرائی پاکستان کی سیاست کا سیاہ باب ہے۔ اس وقت میاں نوازشریف کو عسکری قیادت کی دامے درمے سخنے حمایت حاصل تھی اس پر مستزاد یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے اداروں اور مہروں نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے خلاف انتظامی طور پر اور پراپیگنڈا کے محاذ پر طوفان برپا کر رکھا تھا، مرکز کے خلاف "چالوں" کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا، محترمہ وزیراعظم ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ پلس نواز شریف کے سامنے بے بس تھیں، اسی بنا پر بے نظیربھٹو کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کامقابلہ نہ کر پائی اور تقریباً 20 ماہ بعد اگست 1990ء میں صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کا بے پناہ بدعنوانی کے الزامات کی بنا پر خاتمہ کر دیا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی "حکمت" سے حکومتوں کو چلتا کرنے کی روایت ہی بن گئی تھی حتیٰ کہ 1993ء میں جب نواز شریف نے صدر غلام اسحق خان کے خلاف"میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا"کا نعرہ مستانہ لگایا تو انہیں بھی غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔ میاں صاحب کو چیف جسٹس آ ف پاکستان نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے بحال تو کر دیا لیکن وہ ایک برائے نام وزیر اعظم بن کر رہ گئے۔ ان کی حکومت کو رینجرز کی حمایت حاصل تھی نہ بری فوج کی، لہٰذا چند ہفتوں بعد ہی اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا، ساتھ ہی غلام اسحاق خان کو بھی رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد نئے عام انتخابات کی نوید سنائی گئی لیکن ان کے نتائج پہلے سے ہی سب کو معلوم تھے۔ اقتدار کے میوزیکل چیئر کے اس کھیل میں بے نظیربھٹو پھر وزیراعظم منتخب ہو گئیں، یہ وہ دور تھا جب میاں نواز شریف مقتدر قوتوں کے بڑے "پیارے"تھے، اس لئے پیپلزپارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میں بدامنی، بدعنوانی اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو چلتا کیا۔ پھر1997ء کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بن گئے اور ان کا اقتدار اکتوبر1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے"کو"کی نذر ہو گیا۔ نوازشریف جو مقتدر قوتوں کی آنکھ کا تارا تھے پھر آہستہ آہستہ ان کے" ولن" بن گئے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب منتخب حکومت کو گھر بھیجنا آسان نہیں رہا۔

پاکستان میں معاملات بظاہر جتنے بھی بگڑ جائیں ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں، جس انداز سے اب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو اقتدار کی رسہ کشی میں فٹ بال بنایا جا رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو ا۔ 1972ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو صدر مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے، اس وقت پنجاب اور سرحد میں پولیس نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا جس کے پورا نہ ہونے پر دونوں صوبوں میں پولیس نے ہڑتال کر دی۔ بھٹو نے اس وقت کے آرمی چیف گل حسن سے مدد مانگی، ان کے معذرت کرنے پر بھٹو نے ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان سے معاونت طلب کی لیکن انہوں نے بھی ٹکا سا جواب دے دیا کہ ائیر فورس اپنے لوگوں پر بمباری نہیں کر سکتی۔ اس بحران میں بری اور فضائی فوج کے دونوں چیفس نے مستعفی ہونا بہتر سمجھا اور اپنے عوام کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ بعد ازاں پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لئے گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر نے خالی تھانوں کا چارج پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو دے دیا اور الٹی میٹم دیا کہ 24گھنٹے میں ڈیوٹی پر واپس نہ آنے والے پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا جائے گا، جس پر پولیس نے ہڑتال ختم کر دی بہرحال ان کی تنخواہیں بھی بڑھا دی گئیں۔ اب بھی سندھ پولیس کی اعلیٰ قیادت مرکز کے رویئے کے باعث طوہاً وکرہاً رخصت پر جانے پر مجبور ہو گئی۔ سندھ پولیس نے بُرد باری سے کام لیتے ہوئے رخصت پر جانے کا اپنا فیصلہ موخر کر دیا لیکن معاملہ ابھی تک ٹلا نہیں۔ معاملے کی تحقیقا ت کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پانچ رکنی کمیٹی بنا دی ہے، جس کے کنوینر وزیر سندھ تعلیم سعید غنی جبکہ ارکان میں ناصر شاہ، سردار شاہ، اویس قادر شاہ اور بیرسٹر مرتضیٰ وہاب شامل ہیں۔ ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کورکمانڈر کراچی سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچ گئی۔ حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ بطور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مطابق انہیں ایک وفاقی وزیر کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ آپ کی حکومت نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کی تو سندھ حکومت کی چھٹی کرا دی جائے گی۔ مراد علی شاہ نے یہ انکشاف سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کیا۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ سندھ کی کوششوں سے احتجاجاً رخصت پر جانے والے پولیس افسر واپس ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سارے معاملے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ انہوں نے محرکات کی پروا کئے بغیر ہر صورت میں سندھ حکومت کو گھر بھیجنا ہے۔ یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ بجائے اس کے کہ سیاسی ادارے خود پر انحصار کریں اور سیاسی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھیں بلا شرکت غیرے نتائج کی پروا کئے بغیر پورے پاکستان کو سیاسی طور فتح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ صوبوں میں متحارب پارٹیوں کی حکومتیں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت ہی چل سکتی ہیں، لیکن یہاں انا پرستی کی روایت غالب آ جاتی ہے۔ اسی بنا پر وقتی مصلحتیں سیاسی مصلحتوں پر حاوی رہتی ہیں۔

دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کے پاس سندھ کو فتح کرنے کے بجائے اور بہت سے مسائل ہیں جو فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ گورننس کے مسائل اتنے گنجلک ہو چکے ہیں کہ خدشہ ہے کہ عنقریب سسٹم ہی بیٹھ جائے گا لیکن حکمرانوں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں طاقتور قوتوں کی حمایت حاصل ہے تاہم ہوا کا رخ بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ یہ حلقے موجودہ صورتحال کو زیادہ دیر تک برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بہتر تو یہی ہے کہ حکومت انا پرستی اور خود سری کے رویئے کے بجائے برداشت کا مادہ پیدا کرے اور مل جل کر صورتحال کا سیاسی حل تلاش کرے بصورت دیگرپانی سر سے گزر جائے گا۔