Khilona Toota To?
Arif Nizami95
لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور در حقیقت سربراہ میاں نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد جارحانہ حکمت عملی پر تو کاربند تھے ہی لیکن اب وہ سیاسی خود کشی کے راستے پر گامزن ہیں۔ نان سٹیٹ ایکٹرز والے اپنے حالیہ تباہ کن انٹرویو کے بعد میاں صاحب کے کسی مخالف کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں، خود حکمران جماعت کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں جو میاں نوازشریف کی اس روش پر سخت ناپسندید گی کا اظہارکر رہی ہیں۔ لہٰذا یہ حقیقی خطرہ موجود ہے کہ پارٹی کو بہت سے لوگ خیر باد کہہ جائیں یا پارٹی ٹوٹ جائے۔ ایک طرف تو میاں نوازشریف الزام لگاتے ہیں ’ خلائی مخلوق، ان کی پارٹی کو توڑنے کے درپے ہے۔ پتہ نہیں کسی کا کوئی ایسا ارادہ ہے بھی یا نہیں لیکن میاں صاحب تو خود نادانستہ یا دانستہ طور پر اس کی تقسیم کے بیج بو رہے ہیں۔ میاں نوازشریف کے حالیہ بیانیے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کو پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک جنرل ضیاء الحق کی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی اور خفیہ ایجنسیوں کی آشیرباد سے بننے والی سیاسی جماعت یکدم بڑی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی بن کر ابھرنا چاہتی ہے اور میاں صاحب خود اپنے اور جمہوریت کے ساتھ گزشتہ 70برس کے دوران کردہ، ناکردہ زیادتیوں کا بدلہ یکمشت چکانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت یہ بات انہونی لگتی ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت میں واضح دراڑیں پڑ گئی ہیں اور برادر خورد شہبازشریف بھی نواز شریف کی موجودہ حکمت عملی سے قطعا ً اتفاق نہیں کرتے۔ دوسری طرف’ مرد ناراض، چوہدری نثار علی خان ہیں جن کی پارلیمانی بورڈ میں موجودگی کی صورت میں پرویز رشید نے ممبر بننے سے انکار کر دیا ہے۔ چوہدری نثار بھی میاں نوازشریف کی فوج مخالف حکمت عملی کے برملا مخالف ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی مرحلے پر برادر خورد شہباز شریف بھی میاں صاحب کے خلاف کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں اور پارٹی کی تقسیم ہو جائے۔ اگرچہ اس کا امکان کم ہے لیکن سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ پارلیمانی پارٹی میں اختلاف کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو اب بھی120ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم روزنامہ "پاکستان ٹو ڈے " کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن )میں اس حد تک پھوٹ پڑ چکی ہے کہ بعض وفاقی وزراء کے ایک موثر گروپ نے میاں نوازشریف کے طرز تکلم سے تنگ آ کر لاتعلق ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس گروپ میں وزیر پانی وبجلی سردار اویس لغاری، پانی کے وسائل کے وزیر سید جاوید علی شاہ، سمندر پار پاکستانیوں کے امور کے وزیر عبدالرحمن کا نجو اور بین الصوبائی رابطہ کے وزیر ریاض پیرزادہ شامل ہیں۔ اویس لغاری نے تو بھری محفل میں یہ تک کہہ دیا کہ موجود ہ حالات میں ان کے لیے الیکشن مہم چلانا ممکن نظر نہیں آتا۔ انھیں خدشہ ہے کہ یہی حالات رہے تو مسلم لیگ (ن) کو 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی والے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عبدالرحمن کانجو کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت کی کارکردگی تو اچھی ہے لیکن میاں نواز شریف کی حکمت عملی ہمارے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ جاوید علی شاہ کو گلہ ہے کہ اس کے باوجودکہ وہ پارٹی کے وفادار ہیں ان کے مشوروں پر کان نہیں دھرا جا رہا۔ رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے اس اجلاس میں خود میاں شہباز شریف نے وفاقیوزراء کے خدشات کو جائز قرار دیا اور وعدہ کیا کہ وہ اس ضمن میں میاں نواز شریف سے بات کریں گے۔ میاں نوازشریف کی کھل کر مدافعت کرنے والوں میں دانیال عزیز، طارق فضل چوہدری اور معدودے چند ارکان شامل تھے۔ پارلیمانی پارٹی کو خدشہ ہے کہ عوام انتخابی مہم کے دوران انھیں گھروں سے بھی نہیں نکلنے دیں گے۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) میں حال ہی میں ایک بار پھر شامل ہونے والے شعلہ نوا رہنما جاوید ہاشمی ملتان میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر آئے تو ان کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ جاوید ہاشمی نے چند روز قبل مقتدر اداروں پر کڑی تنقید کی تھی اور مشورہ دیا تھا کہ وہ سیاستدانوں کی تکریم کریں۔ شاید ایسے ارشادات انھیں بھی مہنگے پڑیں۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کا حال اس بگڑے بچے کی طرح ہے جو کہتا ہے مجھے اقتدارکا کھلونا نہ دیا گیا تو میں اسے توڑ ہی دوں گا۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ میاں صاحب کی سوچ اب اس حد تک بدل چکی ہے کہ اگر وہ وزیراعظم نہیں بنتے تو وہ چاہیں گے کہ یہ وراثت منتخب ہونے کی صورت میں شہبازشریف کی طرف بھی نہ جائے۔ میاں نوازشریف واقعی انقلابی بن چکے ہیں، وہ سالہا سال سے اس جستجو میں ہیں کہ سیاستدانوں کی فوج سمیت تمام اداروں پر بالادستی ہونی چاہیے۔ اس دیوانگی میں وہ کئی بار حکومت کھو چکے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ سویلین بالادستی کے لیے محض نعرے بازی نہیں بلکہ بڑی عرق ریزی بھی کرنا پڑتی ہے لیکن انھوں نے اپنے اقتدار کے تینوں ادوار میں اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ بقول آصف زرداری ہمیشہ وزیراعظم کے بجائے مغل اعظم بننے کی کوشش کی، الٹا نتیجہ یہ نکلا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکمران جماعت کے ارکان گلہ کرتے ہیں کہ انھیں پارٹی چھوڑنے کے لیے خفیہ ہاتھ ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ اس پر مستزادیہ ہے کہ وہ میڈیا جو پرویز مشرف کے دور میں نسبتاً آزادی سے کام کر رہا تھا اب چینلز کی پراسرار بندش اور اخباروں کی تقسیم میں تعطل کی شکایات منظر عام پر آ رہی ہیں۔ آزاد میڈیا بھی جو اس دور میں جب الطاف حسین کا طوطی بولتا تھا اور تمام چینلز اس کے اشارے پر بند کر دیئے جاتے تھے اور بعض اخباروں کی تقسیم میں بھی رخنہ اندازی کی جاتی تھی کو بھول چکے تھے، الطاف حسین کا سحر تو ختم ہو گیا لیکن تاریخ اسی انداز میں دہرائی جا رہی ہے۔ میاں نوازشریف کو اپنے چند انقلابی ساتھیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے زمین پرقدم جما کر پارٹی کا وسیع تر مفاد دیکھتے ہوئے اپنے موجودہ رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے اور ٹھنڈی کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ بصورت دیگریہ کھلونا ٹوٹ جائے گا اور کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔