جب بھی کوئی معا ملہ حکومت کے ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آتا ہے تو فوراً ہی اس صورتحال کا ذمہ دار کسی نہ کسی تصوراتی مافیا کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم بھی کہتی ہے کہ" آئو مافیا، مافیا کھیلیں "۔ اب جبکہ عین فصل کاٹنے کے ساتھ ہی گندم کا بحران سر پر آگیا ہے اور ابھی سے گندم اور آٹے کی قیمت تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے تو تاریخی کوتاہی جس کے تحت گندم کی برآمدکی اجازت دے دی گئی تھی کے لیے ذخیرہ اندوزوں پر مشتمل مافیا کو موردالزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر جو سابق حکومتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کو ٹارگٹ کرنے میں یکتا ہیں اور اسی وقت بولتے ہیں جب انہوں نے شریف فیملی پر کرپشن کے مزید الزامات لگانے ہوں، ان کا تازہ فرمان ہے کہ 2018ء میں رمضان پیکیج کے نام پر سبسڈی دینے کے بہانے اس وقت کی حکومت نے قوم کو 25 کروڑ روپے سے زائد کا چونا لگایا۔ شہزاد اکبر شوق سے خودساختہ سرابوں کے پیچھے بھاگتے رہیں لیکن 2018ء میں جو کچھ ہوا اس کا آج کے گندم، آٹا بحران سے کیا تعلق ہے؟ جمعے کو قومی اسمبلی میں وزیر فوڈسکیورٹی فخرامام نے بھی گندم کی قیمت میں اضافے پر حیرانگی ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عجوبہ ہے کہ پہلی مرتبہ اتنی گندم آئی مگر گئی کہاں؟ وزارت فوڈ سکیورٹی نے اعلان کیا ہے کہ گندم کی درآمد کے لیے سہولتیں دی جائیں گی اور اس پر عائد 11 فیصد کسٹمز ڈیوٹی، 60 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، 17 فیصد سیلز ٹیکس اور 6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکسز سب معاف ہیں۔ گویا کہ دوسرے لفظوں میں حکومت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ گندم کی ترسیل اور مانگ میں تفاوت ہے۔ یہ بھی درست ہوگا کہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر گندم کے بیوپاری ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کاروباری سیٹھ ہیں سوشل ورکر نہیں انہیں حکومتی ترجمان ذخیرہ اندوز کہتے ہیں لیکن وہ اجناس کا جائز کاروبار سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ جس نے ہدف سے تھوڑی زائد گندم خریدی ہے کے سوا کوئی صوبہ بھی اپنا ہدف پورا نہیں کر پایا۔ سندھ حکومت پہلے ہی خدشہ ظاہر کر چکی ہے کہ سندھ سے گندم سمگل ہو کر بیرون ملک پہنچ جائیگی، اس طرح سب کو معلوم ہے کہ گندم اور آٹا کی افغانستان کی ضروریات بھی پاکستان سے سمگل شدہ اجناس سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ اس معاملے کو کنٹرول کرنے کے لیے جس انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہے اسکا یکسر فقدان ہے۔ وزیرفوڈ سکیورٹی فخرامام ایک تجربہ کار اور نسبتاً پڑھے لکھے سیاستدان ہیں، انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے لہذا حکومت کو انھیں ٹاسک دینا چاہیے کہ وہ اس معاملے میں کوئی حکمت عملی بنا کر کابینہ میں پیش کریں۔
معاملہ اگر محض گندم کی قلت تک ہی محدود ہوتا تو اسے مینج کرنے کی کاوشیں قابل فہم ہوتیں لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ شوگر ملز کی طرف سے ہائیکورٹ میں یقین دہانی کروانے کے باوجود چینی کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اس معاملے میں وزیراعظم نام نہاد شوگر ملز مالکان کو موردالزام ٹھہراتے ہیں لیکن یہ توقع رکھنا کہ شوگر ملز مالکان اپنی لاگت سے بھی کم پر چینی فروخت کریں گے عبث ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم کے اردگرد کئی شوگر بیرن بیٹھے ہیں ان میں جہانگیر ترین بھی شامل تھے جو اب آئوٹ ہو چکے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وزیراعظم ڈرانے دھمکانے کے بجائے شوگر ملزمالکان کو خود انگیج کرتے ہوئے مسئلہ کا حل نکالتے۔ اس کے علاوہ جب گزشتہ ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قلت ہوئی اور ملک بھر میں پٹرول پمپس پر طویل قطاریں لگ گئیں تو حکومت نے اس کا الزام بھی نام نہاد پٹرول مافیا کے سرتھونپ دیا۔ بعدازاں یہ خبر آئی کہ پٹرول کی بین الاقوامی قیمت جب کریش کر گئی تھی تو حکومت نے تیل درآمد نہیں کیا۔ بعدازاں وزیر اعظم کے کسی مشیر نے مشورہ دیا کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والے تیل کو ریفائن کیا جائے لیکن موصوف کی قابلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں علم ہی نہیں کہ یہ آئل ریفائنریز مقامی طور پر پیدا ہونے والے تیل کو پراسیس ہی نہیں کر سکتیں، لیکن الٹا پٹرولیم کمپنیوں کو کروڑوں روپے جرمانے کر دیا گیا لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ 26 جون کو حکومت نے بلاواسطہ طور پر اپنی غلطی مانتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں دگنا اضافہ کر کے قوم پر پٹرول بم گرادیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی کے حوالے سے اوگرا ہر ماہ کے آخری ایام میں سمری بھیجتا ہے اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور زبانی جمع خرچ سے وزارت خزانہ کے مشورے پر ایسا کردیاگیا جس سے نام نہاد پٹرولیم مافیا جس پر کرپشن اور ذخیرہ اندوزی کا الزام لگایا گیا تھا یکدم اربوں روپے کا فائدہ کما گیا۔
پاور سیکٹر مافیا کا بھی بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے حکومت کی نظر میں آئی پی پیز پراجیکٹس لگا کر قوم کو خوب لوٹا۔ بعض ذرائع کے مطابق حکومت آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے لیکن یہاں یہ رکاوٹ بن گئی ہے کہ کئی پاورپراجیکٹس چینی کمپنیوں کے اشتراک سے لگائے گئے ہیں۔ جہاں تک "کے الیکٹرک" کا تعلق ہے اس کی نااہلیوں نے لوڈشیڈنگ کی صورت میں کراچی کے شہریوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس کمپنی کے مالک برطانیہ میں اپنے گھر میں مقید، وزیراعظم کے قریبی دوست اور فنانسر، بہت بڑی ایکویٹی کمپنی کے مالک عارف نقوی ہیں لیکن ادھر بھی حکومتی ترجمان یہ بودھا استدلال اختیار کیے ہوئے ہیں کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو سابق حکومتوں نے پرائیویٹائز کیا تھا لہذا وہ ہی اصل مافیا ہے۔ ایک اور مافیا پائیلٹس مافیا ہے۔ وزیر ہوا بازی نے یہ کہہ کر کہ 262 پاکستانی پائیلٹس کے لائسنس جعلی ہیں آئندہ چھ ماہ کے لیے قومی ایرلائن کو پاکستان تک ہی محدود کر دیا ہے کیونکہ یورپ، امریکہ، برطانیہ، ملائشیا اور بعض دیگر ممالک کے مطابق پی آئی اے ایسے پائیلٹس کے ساتھ ان کے سیفٹی معیار پر پورا نہیں اترتی۔ پائیلٹس مافیا کا ملبہ بھی سابق حکومتوں پر ڈالا جا رہا ہے۔
اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے مافیا مافیا کا یہ کھیل پاکستان کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف تو ڈنکے کی چوٹ پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو جنت نظیر بنا دیں گے جہاں پاکستان کے عوام ایک مضبوط اقتصادی قوت کے طور پر خوشحالی کی زندگی گزار سکیں گے۔ وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے لیے غیرملکیوں کی لائن لگی ہوگی نیز یہ کہ پاکستان سیاحت کا بھی گڑھ بن جائے گا۔ لیکن حکومتی زعما اور ترجمانوں کے گزشتہ دو سال کے بیانیے کے مطابق خان صاحب اور ان کی ٹیم کے سوا پاکستانی سیاستدان پرلے درجے کے کرپٹ ہیں۔ یہی حال پاکستان کے دیگر شعبوں کا ہے جن پر مختلف مافیا راج کر رہے ہیں۔ یقینا پاکستان میں مختلف شعبوں میں کرپشن بہت بڑا ناسور ہے اور اس پر رننگ کمنٹری نے پاکستان کا امیج دنیا میں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر اس پر رننگ کمنٹری کم کی جائے اور ایک بہتر ٹیم سامنے لاکر گورننس کے معاملات جو بہت ہی دگرگوں ہیں بہتر کیے جائیں تو خان صاحب کا قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔